عالمی ادارہ صحت اور تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب بین الاقوامی تارکین وطن اور اپنے ہی ملک کے اندرونی حصوں میں نقل مکانی کرنے والے لوگ ذہنی دباؤ اور نامساعد حالات میں کام کرنے کے باعث صحت کی خرابی کاشکار ہوجاتے ہیں۔ جنیوا میں قائم یہ ادارے اور اسپین کی حکومت مل کر تارکین وطن کی صحت کو بہتر بنانے کے طریقوں پر گفتگو کے لیے میڈرڈ میں بدھ سے جمعرات تک ایک کانفرنس کا اہتمام کررہے ہیں۔
دونوں اداروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تارکین وطن صحت مند ہیں۔ لیکن وہ جن کی صحت ٹھیک نہیں ہے،بہتر زندگی کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے تقریباً 21 کروڑ 40 لاکھ افراد میں شامل ہیں۔
ان متاثرہ گروپس میں ایسے تارکین وطن شامل ہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہوتیں یا جنہیں قدرتی یا انسان کے پیدا کردہ سانحوں کی وجہ سے ترک وطن پر مجبور ہونا پڑتا ہے ، یا جو غیر قانونی انسانی سمگلنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ان دنوں عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کو اکثر اوقات استحصال اور ذہنی اور جسمانی بدسلوکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے تارکین وطن کی صحت سے متعلق سینئیر عہدے دار جیکولین ویکرز کا کہنا ہے کہ کیونکہ ان میں سے بہت سے تارکین وطن غربت کی زندگی گذارتے ہیں، اس لیے انہیں صحت کی خرابی کا نسبتاً زیادہ خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان تارکین وطن کوصحت ، سماجی خدمات اور معاشرتی تحفظ تک مناسب رسائی نہیں ہوتی۔
جیکولین کہتی ہیں کہ یہ لوگ نہ صرف گنجان آباد جگہوں پر رہتے ہیں او ر انہیں طویل عرصے تک صحت بخش خوراک حاصل نہیں ہو پاتی بلکہ اپنی پرانی اور شدید بیماریوں کا علاج میسر نہ ہونے کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ان کی صحت پر مزید برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں کام کی جگہوں کے حالات کے نتیجے میں پیش آنے والے صحت کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ زیادہ تر تارکین وطن اس لیے اپنا ملک چھوڑتے ہیں کیونکہ انہیں روزگار کی تلاش ہوتی ہے اور اس لیے انہیں ایسے حالات میں بھی کام کرنا پڑتا ہے جو انسانی تکریم کے منافی ، خطرناک اور غلیظ نوعیت کے ہوتے ہیں۔وہ ایسے کام کرتے ہیں جو بہت سے دوسرے لوگ نہیں کرنا چاہتے اور انہیں کام کرنے کے دوران کسی قسم کی ہیلتھ انشورنش کی سہولت بھی حاصل نہیں ہوتی۔
ویکرز کا کہنا ہے کہ تارکین وطن میں سے نصف سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین اپنے طورپر ترک وطن کرتی ہیں اور انہیں ایسے غیر محفوظ حالات میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں ان میں سے اکثر جنسی استحصال کا نشانہ بھی بن جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان تارکین وطن کی ذہنی صحت بھی تشویش کی ایک وجہ ہے۔
جیکولین ویکرز کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت صرف انہی لوگوں کا مسئلہ نہیں ہوتی جو شدید ذہنی دباؤ کے حالات سے گذرتے ہیں ، مثلاً پناہ گزین ہونا یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننا وغیر ہ۔ بلکہ بہت سے ایسے تارکین وطن جو خود کو انتہائی الگ تھلگ اور نظر انداز کیا ہوا سمجھتے ہیں اور جو اپنے اردگرد کے لوگوں سے بات چیت نہیں کرسکتے ، وہ بھی ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔
2008ء میں جنیوا میں منعقد ہونے والے صحت کے عالمی اجلاس میں تارکین وطن کی صحت پر ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ یہ مسئلہ اس سال مئی میں ہونے والے اجلاس میں ایک بار پھر اٹھایا جائے گا۔
ویکرز کا کہنا ہے کہ میڈرڈ میں ہونے والی اس تین روز کانفرنس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ دو سال پہلے منظور ہونے والی قرارداد کے بعد سے اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس اجلاس کا مقصد تارکین وطن کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیوں اور قوانین کی نشان دہی کرنا ہے۔