ترک بندرگاہ دکیلی پر پیر کو ترکی کے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے ایک چھوٹے گروپ نے یورپ سے واپس بھیجے گئے پناہ گزینوں کی پہلی کشتی کا استقبال کیا۔
جمعے کو ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت یونان سے مزید 200 پناہ گزینوں کی کھیپ ترکی پہنچنے کی توقع ہے۔
مگر ترک شہریوں میں اس بارے میں تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ جو افراد اپنے ملکوں میں واپس نہیں جانا چاہتے کیا انہیں ترکی میں رہ جانا چاہیئے۔
اس معاہدے میں ترکی سے اربوں ڈالر امداد اور اس کے شہریوں کو یورپی یونین میں بغیر ویزا کے سفر کی ممکنہ اجازت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مگر کچھ ترک شہریوں کا کہنا ہے کہ اس میں یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے بارے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
تاہم ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو ایسے وقت اس معاہدے کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع ملا ہے جب ان کی حکومت نے ترکی کے جنوب میں کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشن اور ملک کے میڈیا کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
مارچ کے وسط میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ترکی کو پناہ گزینوں کی مدد کے لیے تین ارب ڈالر سے زائد امداد دی جائے گی اور ہر واپس بھیجے جانے والے پناہ کے لیے نااہل پناہ گزین کے بدلے میں ترکی سے ایک اہل شامی پناہ گزین کو یورپ بھیجا جائے گا۔
یونان اور یورپی یونین 20 مارچ کے بعد یونان پہنچنے والے تمام پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیج دیں گے جبکہ یونان کا کہنا ہے کہ اس کے ساحل پر روزانہ تین سے پانچ سو پناہ گزین پہنچ رہے ہیں جو معاہدے سے پہلے کی روزانہ تعداد سے کافی کم ہے۔
ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر کا باسمین علاقہ یورپ جانے کے خواہشمند پناہ گزینوں سے بھرا رہتا تھا مگر اب واپس ترکی بھیجے جانے کے خوف سے لوگوں نے سمندر پار کر کے یورپ پہنچنے کے لیے یہاں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اگرچہ کچھ ترک شہری پناہ گزینوں کے آنے سے خوش ہیں کیونکہ اس سے ان کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے مگر کچھ کا خیال ہے کہ پناہ گزینوں کی موجودگی سے ملک میں بدامنی میں اضافہ ہو گا۔
ترکی کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ واپس بھیجے جانے والے پناہ گزین لوگوں کی نظروں میں نہ آئیں تاکہ مقامی سطح پر کشیدگی پیدا نہ ہو۔
اس ہفتے یونان سے ترکی پہنچنے والے پاکستانی اور دیگر پناہ گزینوں کو جہازوں سے اترنے کے بعد بندرگاہوں سے 500 کلومیٹر دور واقع کرکلاریلی استقبالیہ مرکز میں لے جایا گیا۔
انقرہ کا کہنا ہے کہ شامیوں کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا جائے گا جبکہ دیگر کو ان کے آبائی وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔