پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کے روز امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی۔
ذرائع کے مطابق، اِن ملاقاتوں کے دوران پاکستان امریکہ باہمی تعلقات اور خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔
شاہ محمود قریشی کو ملاقات کی دعوت مائیک پومپیو نے دورہ پاکستان کے دوران دی تھی۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقات وائٹ ہاؤس میں، جب کہ مائیک پومپیو سے محکمہ خارجہ میں ہوئی۔
متوقع طور پر جان بولٹن سےملاقات میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعطل کے شکار تعلقات کو بحال کرنے کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
سرکاری ذرائع سے ان ملاقاتوں کی تفصیل متوقع ہے۔
اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق، وزائے خارجہ کی ملاقات میں افغانستان کی صورت حال کے علاوہ پاکستان اور چین کے قریبی معاشی تعلقات اور بھارت کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے بات چیت متوقع تھی۔
تاہم، خیال ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کی بحالی کو اولیت حاصل رہے گی جو اس سال کے آغاز سے بڑی حد تک کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تبادلے پر بھی بات ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل پاکستان میں تحریک انصاف کی نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس میں دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی۔
اس موقع پر رپورٹروں کے سوال کے جواب میں مائک پومپیو نے کہا تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ہم اُن کا نقطہ نظر جاننا چاہتے تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو ختم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔
اپنے دورہ پاکستان کے دوران امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی خاطر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی تھی۔
دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہونے کی وجوہات میں دہشت گردی کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر بھی اہم رہا ہے۔ امریکہ پاکستان سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت اُن تمام دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے جو بقول اُس کے افغانستان میں دہشت گرد حملوں کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اُس نے قبائلی علاقوں سمیت تمام ملک سے دہشت گرد گروپوں کی پناہ گاہوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ اس خواہش کا اظہار کرتا رہا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے افغانستان میں امن بات چیت میں شامل ہونے پر مجبور کرے۔
یوں ماہرین اور مبصرین کی نگاہیں مائک پومپیو اور شاہ محمود قریشی کی اب سے کچھ دیر بعد ہونے والی ملاقات پر مرکوز ہیں۔ پاکستانی سفاتخانے نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس ملاقات کے بعد کسی قسم کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو گا۔ تاہم دونوں فریقین میڈیا کیلئے الگ الگ بیانات جاری کر سکتے ہیں۔