رسائی کے لنکس

گوربا چوف: سوویت یونین اور سرد جنگ ختم کرنے والے ’غیر روایتی‘ سوشلسٹ لیڈر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

میخائل گورباچوف نے 25 دسمبر 1991 کو استعفی دیا تو اس کے اگلے ہی دن بیسویں صدی میں کمیونسٹ نظریات پر قائم ہونے والی سب سے بڑی ریاست سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

اس کے ساتھ ہی 1947 سے جاری اس عہد کا خاتمہ بھی ہوا، جس میں دنیا کی دو بڑی قوتیں امریکہ اور سوویت یونین مختلف خطوں میں اثر و رسوخ کے لیے برسرِ پیکار رہی تھیں۔ اس دور کو ’سرد جنگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

گورباچوف کو سرد جنگ ختم کرنے میں کردار ادا کرنے پر 1990 میں امن کا نوبیل پرائز بھی دیا گیا تھا۔ اقتدار سے سبک دوشی اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد انہیں کئی دیگر عالمی اعزازات سے نوازا گیا۔

تاریخ کا دھارا موڑنے والا رہنما

سوویت یونین بنیادی طور پر کمیونسٹ نظریات کی بنیاد پر بنائی گئی ریاست تھی، جو 1917 میں روس میں لینن کی قیادت میں آنے والے بالشویک انقلاب کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ سوویت یونین کا قیام 1922 میں ہوا تھا جس کا مرکز روس تھا اور مرکزی حکومت کے تحت مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے 15 ممالک اس میں شامل تھے۔

سوویت یونین میں صرف ایک ہی سیاسی جماعت ’کمیونسٹ پارٹی‘ تھی اور وہی حکمران تھی۔ مطلق العنان مرکزی حکومتی ڈھانچے، آزادیٔ اظہار اور سیاسی و انسانی حقوق پرعائد پابندیوں کی وجہ سے سوویت یونین کے نظامِ حکومت کو ’آہنی پردہ‘ یا آئرن کرٹن کہا جاتا تھا۔

سوویت یونین کی توسیع پسندی کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے مغربی دنیا اور اس ریاست کے درمیان ایک طویل چپقلش کا آغاز ہوا جسے سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں مغربی دنیا کی قیادت امریکہ کے پاس تھی۔

میخائل گورباچوف نے مشرقی یورپ کو سوویت حکمرانی سے آزاد کیا، جس کے بعد سوویت یونین کے انہدام کی راہ ہموار ہوئی۔

اسی لیے انہیں دنیا کے ان رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا، جس پر مغربی دنیا میں انہیں پذیرائی ملی لیکن روس میں کئی لوگوں کے نزدیک وہ شکست اور پسپائی کی علامت بن گئے۔

گوربا چوف نے سوویت یونین میں حکومتی اداروں کی ریاستی جبر سے نکالنے اور صحافت پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے کی گئی اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان اصلاحات کو روس میں ’گلازنوست‘ اور ’پریستوریکا‘ کہا جاتا تھا۔ انہیں اصلاحات کے نتیجے میں سوویت یونین کے اندر وہ قوتیں مضبوط ہوئیں جن کے نتیجے میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا۔

سوویت یونین کے خاتمے کی وجہ سے مغربی دنیا میں گورباچوف کو آزادی اور امن کے حامی رہنما کے طور پر سراہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، جس کے بارے میں دنیا کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ یہ کشمکش کبھی ختم نہیں ہوگی۔البتہ روس میں گورباچوف نفرت کی علامت بن گئے تھے۔ روسی اکثریت انہیں سوویت یونین کی صورت میں قائم سلطنت کے زوال کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔

اسٹالن کے زیرِ عتاب رہنے والا کمیونسٹ خاندان

میخائل سرگیوچ گورباچوف دو مارچ 1931 میں جنوبی روس کے ایک گاؤں میں پری ولنئی میں پیدا ہوئے۔ یہ کسانوں کا گھرانہ تھا۔ ان کے نانا اور دادا دونوں ہی کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے۔

کمیونسٹ پارٹی سے اپنی دیرینہ وابستگی کے باوجود ان کا خاندان سوویت آمر جوزف اسٹالن کے عتاب سے محفوظ نہیں رہا۔

گورباچوف کے نانا اور دادا دونوں کو ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔

اسٹالن کے دور میں ریاست مخالف الزام میں گرفتار ہونے والے شاذ و نادر ہی آزادی کا منہ دیکھ پاتے تھے البتہ گورباچوف کے نانا اور دادا اس معاملے میں خوش نصیب رہے اور انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

سال 1941 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران جب ان کے گاؤں کے دیگر افراد کے ساتھ گورباچوف کے والد جنگ کے لیے گئے، تو ان کی عمر 10 برس تھی۔ اس دوران گورباچوف کے گاؤں پر نازی قابض ہوگئے اور یہ قبضہ چھ ماہ تک برقرار رہا۔ گورباچوف کے گاؤں سے جنگ کے جانے والوں میں سے کم ہی لوگ زندہ واپس آسکے تھے۔ ان میں گورباچوف کے والد بھی شامل تھے۔

اس وقت گورباچوف کی عمر 15 برس ہوچکی تھی اور تعلیم کے ساتھ اب وہ کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ گورباچوف کے بچپن کے حالات میں کسی ایسی بات کا سراغ نہیں ملتا جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ وہ آئندہ زندگی میں کوئی تاریخی کردار ادا کرنے والے ہیں۔

ان کی پرورش روایتی انداز میں ہوئی تھی اور ابتدا ہی سے سوویت یونین کے ساتھ ان کی وابستگی پختہ تھی۔

اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ گوربا چوف کو 17 برس کی عمر میں ’آرڈر آف دی ریڈ بینر آف لیبر‘ دیا گیا تھا۔ سوویت دور میں صنعت و زراعت اور دیگر پیداواری سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی کرنے والوں کو یہ سرکاری اعزاز دیا جاتا تھا۔

کمیونسٹ پارٹی سے خاندانی وابستگی اور کم عمری ہی میں سرکاری اعزاز حاصل کرنے کی وجہ سے گورباچوف 1950 میں ملک کی بڑی یونی ورسٹیز میں داخلہ لینے میں کامیاب رہے۔

پہلا چیلنج

تعلیم کے ساتھ ساتھ گوربا چوف کمیونسٹ پارٹی میں بھی اپنی پہچان بنا رہے تھے۔

وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ وہ اس دور میں بھی قدرے آزاد خیال تھے۔ کبھی کبھار تو وہ سوویت نظامِ حکومت اور اس کے رہنماؤں پر کڑی تنقید کر جاتے تھے، جو پارٹی کے روایتی ماحول کے بر خلاف تھی۔

گورباچوف کو پارٹی میں اپنے کریئر کے دوران سب سے بڑا چیلنج اس وقت درپیش ہوا، جب کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ نیکیتا خروشچیف نے اپنے اس نوجوان کمیونسٹ پروپیگنڈا عہدے دار سے کہا کہ وہ پارٹی کی بیسویں کانگریس کو لاکھوں پارٹی کارکنان پر جوزف اسٹالن کے ڈھائے گئے مظالم سے آگاہ کریں۔

گوربا چوف کہتے ہیں کہ جب انہوں نے حقائق بیان کرنا شروع کیے، تو سب پر موت جیسی خاموشی طاری تھی۔

خبر رساںا ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو 2006 میں دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ کوئی اسٹالن کے بارے میں ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جوزف اسٹالن کے بارے میں حقائق بیان کرنے پر گورباچوف کو مشکل کا سامنا تھا جب کہ ان کے اپنے نانا اور دادا اسٹالن کی قید میں رہ چکے تھے۔

غیر روایتی سوشلسٹ

گوربا چوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سوشلسٹ نظریات پر یقین رکھنے والے شخص تھے لیکن سخت گیر نہیں تھے۔

وہ 1971 میں کمیونسٹ پارٹی کی بااختیار مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1980 میں کمیونسٹ پارٹی کے سب سے بااختیار پالیسی ساز کمیٹی ’پولٹ بیورو‘ کے رکن بنے۔

اسی دور میں گوربا چوف نے مغربی دنیا کے کئی ممالک بیلجیئم، جرمنی، فرانس، اٹلی اور کینیڈا وغیرہ کے دورے کیے۔ ان دوروں نے سوویت طرز کے سوشلزم کی عظمت و برتری کے بارے میں گوربا چوف کے نظریات کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ اس دوران یہ سوال انہیں پریشان رکھتا تھا کہ ہمارے ملک میں لوگوں کا معیارِ زندگی ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کم درجے کا کیوں ہے؟

اپنی خود نوشت میں انہوں نے لکھا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ سوویت یونین کے عمر رسیدہ رہنماؤں کو اپنے لوگوں کی مشکلات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پس ماندگی کی کوئی فکر ہی نہیں تھی۔

یہ ادراک ہونے کے باوجود گوربا چوف خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔ 1982 میں سوویت لیڈر لیونڈ برزنیف کی موت کے بعد گورباچوف کے استاد یوری ایندروپوف اور کونسٹنٹین چرنینکو اہم لیڈر بن گئے۔

مارچ 1985 میں چرنینکو کے انتقال کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے قدرے کم عمر رہنما کو چننے کا فیصلہ کیا اور 54 سالہ گورباچوف کا انتخاب کیا گیا۔

سرد جنگ کے خاتمے کا آغاز

گوربا چوف کے دور میں سوویت یونین نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ اسی دور میں ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ شراب کے خلاف مہم چلائی گئی جو ناکام ہوئی۔ اس دور میں افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا ہوا اور چرنوبیل کے ایٹمی پلانٹ کا سانحہ بھی اسی دور میں پیش آیا۔

لیکن وہ تبدیلیاں جن کے نتیجے میں سرد جنگ کی کشیدگی میں کمی شروع ہوئی، ان کا آغاز نومبر 1985 سے ہوتا ہے جب گورباچوف نے امریکی صدور رونالڈ ریگن اور جارج بش سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ اور سوویت یونین نے جوہری ہتھیاروں میں کمی لانا شروع کی۔

سال 1989 میں مشرقی یورپ کے ممالک میں کمیونسٹ حکومتوں کا خاتمہ شروع ہوا۔ جرمنی کو تقسیم کرنے والی دیوارِ برلن منہدم کی گئی۔

آئینی اصلاحات کے بعد 1990 میں گورباچوف سوویت یونین کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور آخری صدر ثابت ہوئے۔ 1991 میں کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر رہنماؤں نے گورباچوف کا تختہ الٹنے کی ایک سازش بھی کی البتہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس سازش کی ناکامی میں بورس یلسن نے اہم کردار ادا کیا اور وہ ایک ہیرو کے طور پر سامنے آئے ۔

’ضمیر پر بوجھ نہیں‘

سوویت یونین اورگوربا چوف کا دورِ اقتدار کا خاتمہ ساتھ ساتھ ہوا۔گوربا چوف نے 2016 میں سوویت یونین کے خاتمے کے 25 برس مکمل ہونے پر روس کے سرکاری اخبار میں اپنے ایک مضمون میں انہوں نے سوویت یونین کےخاتمے میں اپنے ذمے داری کا اعتراف کیا۔ لیکن ساتھ ہی لکھا کہ میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آخری وقت تک انہوں نے سوویت یونین کے دفاع کی کوشش کی اور سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔

امن کو جنگ پر ترجیح دینے والا رہنما

گوربا چوف کے اقتدار میں کئی ایسے موقعے آئے جب انہوں نے جنگ پر امن کو ترجیح دی۔

انہوں نے امریکی صدر رونالڈ ریگن سمیت اپنے ہم عصر مغربی رہنماؤں سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ مشہور ہے کہ برطانیہ کی وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر نے ایک بار کہا تھا ’میں مسٹر گورباچوف کو پسند کرتی ہوں۔ ہم دونوں مل کر کاروبار کرسکتے ہیں۔‘

لیکن 1985 سے 1991 تک اپنے دورِ اقتدار میں جوں جوں وہ سوویت یونین میں پابندیاں ختم کررہے تھے وہیں تیزی سے ابھرتے ہوئے کمیونسٹ عہدے دار بورس یلسن بطور لیڈر منظر پر ابھر رہے تھے۔ اس لیے جیسے ہی سوویت یونین کا اختتام ہوا تو گوربا چوف سیاسی منظر سے غیر متعلق ہونا شروع ہوگئے۔ بعدازاں گورباچوف نے سماجی سرگرمیوں بھی شروع کیں۔

انہوں نے 1996 میں ہونے والا صدارتی الیکشن لڑا لیکن صدر یلسن کے مقابلے میں ایک فی صد ووٹ بھی حاصل نہ کرسکے۔

گوربا چوف کے سیاسی فیصلے کون کرتا تھا؟

گورباچوف کے دورِ حکومت میں ان کی اہلیہ رئیسا گوربا چوف بھی عوامی توجہ کا مرکز بنیں۔سوویت یونین کے بانی لینن کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سوویت رہنما کی اہلیہ سیاسی طور پر ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے آرہی تھیں۔

رئیسا گوربا چوف کی بااعتماد شخصیت اورملبوسات کےاچھےذوق کوسوویت یونین میں آنے والی تبدیلیوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

گوربا چوف سے ان کا تعارف یونیورسٹی کے دنوں میں ہوا تھا اور 1953 میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔ 2012 میں ایک ڈاکیومینٹری کے لیے انٹرویو میں گوربا چوف نے کہا تھا کہ ہم ہاتھ میں ہاتھ تھامے زندگی بھرساتھ چلے۔

رئیسا مغربی ممالک میں تو مقبول ہو رہی تھیں لیکن روس کےاندراس تبدیلی کوپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا تھا۔

روس میں ان کے بعض ناقدین یہ قیاس آرائیاں کرتے تھے کہ ان کے سیاسی فیصلے ان کی اہلیہ رئیسا کرتی ہیں۔

گوربا چوف نے اپنی خود نوشت ’الون وِد مائی سیلف‘ میں بارہا رئیسا سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے البتہ ان کا کہنا تھا کہ یہ تعلق ان کے سیاسی فیصلوں پر کبھی اثر انداز نہیں ہوا۔

وہ کہتے تھے کہ رئیسا کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کی سب سے طاقتور کمیٹی پولیٹ بیورو کس طرح کام کرتی ہے۔

سن 1991 میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش کے بعد جب گورباچوف اور ان کی اہلیہ تین روز تک نظر بند رہے تو اسی دوران رئیسا پر فالج کا حملہ ہوا اور کئی روز تو وہ بولنے کے قابل نہیں رہیں۔ 1999 میں رئیسا میں خون کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ کئی ماہ ان کا علاج جاری رہا لیکن وہ 67 برس کی عمر میں اسی سال دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

گوربا چوف کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ انہوں نے خود کو کبھی اتنا تنہا محسوس نہیں کیا۔ مجھے ہمیشہ امید رہی کہ ہم پھر ملیں گے۔

اپنی اہلیہ کی یاد میں ان کے نام پر گورباچوف نے 2006 میں سرطان کے علاج کے لیے ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی۔

رئیسا گوربا چوف فاؤنڈیشن کا کام جاری رکھنے میں ان کی بیٹی ایرینا نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا اور وہ اس ادارے کی نائب صدر بھی رہیں۔

اشتہار سے اخبار تک ۔۔

زارِ روس کا دور ہو یا سوویت یونین کے دن، روس میں اقتدار سے دور ہونے والوں کی آزادی بھی سلب ہو جاتی تھی البتہ گوربا چیف اقتدار سےعلیحدگی کے بعد تین دہائیوں تک آزاد زندگی گزارتے رہے۔

انہوں نے 2006 میں فاؤنڈیشن قائم کرنے کے بعد پیزا ہٹ کے ایک اشتہار میں بھی کام کیا جہاں وہ امریکی چین کے ایک فرنچائز میں داخل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بیٹھے لوگ گوربا چوف کے دور کی اصلاحات پر بات کررہے ہیں اور آخرمیں پیزا ہٹ کو روس میں لانے پر گوربا چوف کی تعریف کرتے ہیں۔ 2007 میں گوربا چوف نے بیش قیمت اشیا تیار کرنے والے فیشن برینڈ لوئی وٹون کے اشتہار میں بھی کام کیا۔

گوربا چوف نے اپنے دورِ حکومت میں پریس کی آزادی کے لیےاصلاحات متعارف کرائی تھیں۔ نوے کی دہائی میں گوربا چوف نے اپوزیشن کے اخبار’نووایا گزیتا‘ کے لیے ابتدائی سرمایہ کاری فراہم کی۔

یہ اخبار صدر پوٹن اور ان کے ساتھیوں کا ناقد رہا ہے اس کے کئی رپورٹر اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے قتل بھی ہوچکے ہیں۔

صدر پوٹن کے بارے میں بھی گوربا چوف کی رائے تبدیل ہوتی رہی۔ 2011 میں انہوں ان حکومتی اقدامات پر کڑی تنقید کی جنہیں وہ جمہوریت کے منافی تصور کرتے تھے لیکن 2014 میں کرائمیا پر قبضہ کرنے کے صدر پوٹن کے اقدام کی حمایت کی۔

وہ اپنی زندگی کے آخری دورتک انٹرویوز دیتے رہے اور عالمی امور پر اظہارِ خیال کرتے رہے البتہ اپنی زندگی کی آٹھویں دہائی گزارنے کے بعد وہ میڈیا پر کم ہی نظر آتے تھے۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’اے ایف پی‘ سے معلومات لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG