عراق میں سنی شدت پسندوں نے شام کی سرحد سے ملحقہ قصبے پر قبضہ کر لیا ہے جس سے یہ لوگ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ دونوں ملکوں کی میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں گے۔
سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولت السلامیہ فی عراق ولشام (آئی ایس آئی ایل) نامی تنظیم کے جنگجوؤں نے جمعہ کو دن بھر جاری رہنے والی لڑائی کے بعد قائم نامی قصبے پر رات دیر گئے قبضہ کر لیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے نام ظاہر نہ کرنے والے حکام سے منسوب خبر میں کہا ہے کہ لوگ اب آزادانہ طور پر سرحد کے آر پار جا رہے ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق قائم پر قبضے کی خبر سنتے ہی سکیورٹی اہلکاروں نے سرحدی پوسٹ خالی کر دی تھی۔
ادھر ہفتہ ہی کو ایک بااثر شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے وفادار جنگجوؤں نے بغداد میں اسلحے کے ساتھ پریڈ کی اور آئی ایس آئی ایل کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
سنی شدت پسند تنظیم کے جنگجو عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سمیت متعدد علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں اور بغداد کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عراقی قصبے قائم اور سرحد پار شام کا علاقہ البوکمال ایک اہم گزر گاہ ہے۔ شام میں جاری تین سالہ خانہ جنگی کے دوران البوکمال کے علاقے میں بھی سنی شدت پسندوں کا اثر و رسوخ قائم ہو چکا ہے۔
یہاں القاعدہ کی شامی شاخ النصرہ سرگرم ہے جس کی آئی ایس آئی ایل سے جھڑپیں ہو چکی ہیں لیکن یہ لوگ اپنی سہولت کے مطابق مقامی طور پر امن معاہدے بھی کر لیتے ہیں۔
امریکہ عراق کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور رواں ہفتے ہی صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ وہ ضرورت پڑنے پر وہاں "ٹارگٹڈ فوجی کارروائی" کے لیے بھی تیار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے عراقی سکیورٹی فورسز کو حمایت اور مشورے کے لیے تین سو امریکی فوجی مشیر بھی عراق بھیجے جائیں گے۔
تاہم انھوں نے عراق میں امریکہ کی زمینی فوج بھیجنے کے امکان کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بحران کو بالآخر عراقیوں نے ہی حل کرنا ہے۔
سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولت السلامیہ فی عراق ولشام (آئی ایس آئی ایل) نامی تنظیم کے جنگجوؤں نے جمعہ کو دن بھر جاری رہنے والی لڑائی کے بعد قائم نامی قصبے پر رات دیر گئے قبضہ کر لیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے نام ظاہر نہ کرنے والے حکام سے منسوب خبر میں کہا ہے کہ لوگ اب آزادانہ طور پر سرحد کے آر پار جا رہے ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق قائم پر قبضے کی خبر سنتے ہی سکیورٹی اہلکاروں نے سرحدی پوسٹ خالی کر دی تھی۔
ادھر ہفتہ ہی کو ایک بااثر شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے وفادار جنگجوؤں نے بغداد میں اسلحے کے ساتھ پریڈ کی اور آئی ایس آئی ایل کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
سنی شدت پسند تنظیم کے جنگجو عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سمیت متعدد علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں اور بغداد کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عراقی قصبے قائم اور سرحد پار شام کا علاقہ البوکمال ایک اہم گزر گاہ ہے۔ شام میں جاری تین سالہ خانہ جنگی کے دوران البوکمال کے علاقے میں بھی سنی شدت پسندوں کا اثر و رسوخ قائم ہو چکا ہے۔
یہاں القاعدہ کی شامی شاخ النصرہ سرگرم ہے جس کی آئی ایس آئی ایل سے جھڑپیں ہو چکی ہیں لیکن یہ لوگ اپنی سہولت کے مطابق مقامی طور پر امن معاہدے بھی کر لیتے ہیں۔
امریکہ عراق کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور رواں ہفتے ہی صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ وہ ضرورت پڑنے پر وہاں "ٹارگٹڈ فوجی کارروائی" کے لیے بھی تیار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے عراقی سکیورٹی فورسز کو حمایت اور مشورے کے لیے تین سو امریکی فوجی مشیر بھی عراق بھیجے جائیں گے۔
تاہم انھوں نے عراق میں امریکہ کی زمینی فوج بھیجنے کے امکان کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بحران کو بالآخر عراقیوں نے ہی حل کرنا ہے۔