رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا فیصلہ درست نہیں ہو گا: فضل الرحمٰن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

زہرہ یوسف کے بقول یہ ضروری ہے کہ ملک کے مروجہ عدالتی نظام کو مضبوط اور بہتر کیا جائے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات جلد نمٹانے اور اُنھیں سزائیں دلوانے کے لیے دو سال قبل بنائی گئی فوجی عدالتوں کی مدت جنوری 2017 میں ختم ہو رہی ہے۔

اس مدت کے اختتام سے­ قبل یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت ایسی قانون سازی پر غور کر رہی ہے جس کے تحت فوجی عدالتوں کو توسیع دی جا سکتی ہے۔

اگرچہ حکومت کی طرف سے ان خبروں پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، تاہم وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ فوجی عدالتوں کو مزید توسیع دینا درست نہیں ہو گا۔

اُنھوں نے کہا کہ ملک میں سویلین عدالتوں کے ججوں کی سلامتی کے حوالے سے جو تحفظات ہیں انھیں دور کیا جانا چاہیئے۔

’’زندگی کو خطرہ ہے یا کوئی خوف ہے تو اُسی حوالے سے ہمیں سوچنا چاہیئے، ہم ججوں کو فوج کی سکیورٹی کیوں نا مہیا کریں، ایسی عدالتیں قائم کرنا جہاں ملزم خوف کے عالم میں پیش ہو، یہ بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔‘‘

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے ایک ہنگامی مشاورتی اجلاس میں دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام فیصلہ کیا گیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ملک کے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے یہ عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں ان عدالتوں کے قیام اور ان میں چلائے جانے والے مقدمات میں مبینہ طور پر انصاف کے تقاضے پورے نا کیے جانے سے متعلق سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔

ہیومین رائیٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ملک میں سویلین عدالتی نظام کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔

’’(دہشت گردی کے) مقدمات کو سویلین عدالتوں میں چلانا چاہیئے، ظاہر ہے اُن میں بہت سے مبینہ دہشت گرد ہیں تو جو جج ہیں اُن کو بھی سکیورٹی کی ضرورت ہے، گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

زہرہ یوسف کے بقول یہ ضروری ہے کہ ملک کے مروجہ عدالتی نظام کو مضبوط اور بہتر کیا جائے۔

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے مقدمات کو سویلین عدالتوں میں منتقل کرنے کے لیے بھی قانونی وضاحت کی ضرورت ہو گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’سویلین عدالتوں میں بھی مقدمات چلتے رہیں اور ایسا نہیں کہ عدالتیں خوف کی وجہ سے فیصلے نہیں کریں گی۔‘‘

حکومت میں شامل عہدیداروں کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جن ملزمان کے خلاف مقدمات چلائے گئے اُنھیں نا صرف صفائی کا پورا موقع دیا گیا بلکہ وکیل کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔

جب کہ سرکاری طور پر یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اس لیے حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔

دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ملک میں سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ چھ سالہ پابندی بھی ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد پاکستان میں 400 سے زائد ایسے مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے جن کو عدالتوں سے سزائے موت سنائی گئی تھی۔

پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا ہے اور حالیہ برسوں میں خاص طور پر آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے اور اُنھیں سزائیں دلوانے کے لیے ہی فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔

XS
SM
MD
LG