پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے آٹھ ’’دہشت گردوں‘‘ کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جن افراد کی سزائے موت کی توثیق کی گئی وہ معروف سماجی کارکن سبین محمود کے قتل، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ چینی انجینئروں کے اغوا اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث تھے۔
فوج کے بیان کے مطابق ان ’’دہشت گردوں‘‘ نے مجموعی طور پر 90 افراد کو قتل اور 99 کو زخمی کیا۔
’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق فوجی عدالتوں سے تین افراد کو عمر قید کی بھی سزا سنائی گئی۔
بیان میں معروف سماجی کارکن سبین محمود کے قتل اور کراچی ہی کے علاقے صفورا چورنگی میں اسماعیلی برداری کی بس پر حملہ کرنے میں ملوث دہشت گردوں کے نام محمد عمیر، علی رحمٰن، عبدالسلام اور خرم شفیق بتائے گئے ہیں۔
سبین محمود کو اپریل 2015 میں کراچی میں اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ ڈیفنس میں واقع اپنے ادارے "دی سینکڈ فلور" میں منعقدہ ایک تقریب کے بعد گھر واپس جا رہی تھیں، اس حملے میں اُن کی والدہ بھی زخمی ہو گئی تھیں۔
مئی 2015 میں صفورا چورنگی میں اسماعیلی برداری کی بس پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ دسمبر 2014ء میں پشاور آرمی پبلک اسکول دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی مشاورت کے بعد دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام فیصلہ کیا گیا تھا۔
2015ء کے اوائل میں پاکستان کے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ملک میں دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن میں دہشت گردی اور ایسے ہی دیگر سنگین جرائم کی سماعت اور مجرموں کو سزائیں دینے کا عمل شروع ہوا۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں ان عدالتوں کی کارروائیوں میں شفافیت پر سوال اٹھاتی رہی ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا موقع اور وکیل کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
فوجی عدالتوں سے اب تک درجنوں دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔