فرانس کے وزیر انصاف نے ججوں کے سخت رد عمل کو سراہتے ہوئے بدھ کو کہا کہ ملک میں گزشتہ ماہ کے آخر میں ہونے والے فسادات پر 700 سے زیادہ افراد کو جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔
کل ، 1,278 کیسز کے فیصلے سنائے گئے ہیں، جن میں 95 فیصد سے زیادہ مدعا علیہان کو توڑ پھوڑ سے لے کر پولیس افسروں پر حملے تک کے مختلف الزامات میں سزا سنائی گئی ہے۔
چھ سو افراد پہلے ہی جیل جا چکے ہیں۔
وزیر انصاف ایرک دوپو لوئیتی نے آر ٹی ایل ریڈیو کو بتایا کہ " یہ انتہائی اہم تھا کہ کوئی ایسا رد عمل ہو جو مضبوط اور منظم ہو۔" "یہ ضروری تھا کہ ہم قومی نظم و ضبط بحال کریں۔"
فرانس میں 2005 کے بعد سے اب تک کا شدید ترین تشدد 27 جون کو اس واقعے سے شروع ہوا جب ایک پولیس افسر نے پیرس کے مغرب میں ایک ٹریفک اسٹاپ کے دوران ایک 17 سالہ شمالی افریقی نژاد لڑکے ناہیل کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس واقعے کو ایک راہگیر نے ریکارڈ کیا تھا جس کی ویڈیو عام ہونے سے ہاؤسنگ پراجیکٹس اور دیگر پسماندہ محلوں میں پولیس اور نوجوانوں کے درمیان پرانی کشیدگیوں اور تشدد کو ہوا ملی۔
تشدد کے واقعات متعدد قصبوں اور شہروں تک پہنچ گئے جن سے املاک اور کاروبار متاثر ہوئے اور ملک کی سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچا۔
تاہم چار راتوں کی شدید جھڑپوں کے بعد ایلیٹ پولیس کے خصوصی دستوں اور بکتر بند گاڑیوں سمیت سیکورٹی فورسز کے تقریباً 45 ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کی بدولت فسادات پر قابو پایا گیا ۔
بہت سے مشتبہ افراد کو فوری طور پر پیشی کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ دفاعی وکلاء نے عدالتی کارروائی کے منصفانہ ہونے اور حراستی سزاؤں کے بھاری استعمال پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
گرفتار کیے گئے 3,700 سے زیادہ افراد کی اوسط عمر صرف 17 سال تھی جب کہ نو عمر بچوں کو علیحدہ عدالتوں میں پیش کیاگیا۔
قید کی سزا پانے والوں کی تعداد 2005 میں آخری بڑے فسادات کے وقت سے زیادہ ہے جب لگ بھگ 400 لوگوں کو جیل بھیجا گیا تھا۔
اس سال 15 سالہ بونا ٹراورے اور 17 سالہ زید بینا کی ہلاکتوں کے نتیجے میں تین ہفتوں تک ملک گیر فسادات ہوئے تھے۔ اس سال فرانس کی حکومت نے ملک گیر فسادات پر قابو پانے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔
فرانس میں افریقی نژاد نوجوا ن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے نتیجے میں ہونے والے پر تشدد احتجاج نے جہاں ملک میں بے چینی کا ماحول پیدا کیا ہے وہیں بین الااقوامی سطح پر ملک کے نسلی مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے۔
ہلاک ہونے والے نوجوان کی والدہ نے اپنے بیٹے کی موت کے عوامل میں نسلی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پوری پولیس فورس کو مورد الزام نہیں ٹھہراتیں بلکہ صرف اس افسر کو "جس نے میرے بیٹے کی جان لی۔"
انہوں نے کہا،""اس نے ایک عرب چہرہ دیکھا، ایک چھوٹا بچہ، اور اس کی جان لینا چاہی۔"
دوسری طرف ایشیائی ملکوں سے آئےہوئے تارکین وطن عام طور پر کہتے ہیں کہ فرانس آزادی اور مساوات کا ماحول فراہم کرتا ہے جہاں ہر کوئی اپنی محنت سے آگے بڑھ سکتا ہے۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی اور اے پی سے لیا گیا ہے)