پاکستان کی وفاقی کابینہ نے منگل کو مزید سات وزارتوں کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی کی منظوری دی ہے جس کے بعد گزشتہ دسمبر میں شروع ہونے والا یہ مرحلہ وار عمل مکمل ہو گیا ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے خصوصی اجلاس میں جن وزارتوں کو منتقل کرنے کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی اُن میں ترقی نسواں، اقلیتی اُمور، کھیل، صحت، ماحولیات، خوراک و زراعت اور محنت و افرادی قوت شامل ہیں۔
آئین میں اپریل 2010ء میں کی گئی اٹھاریوں ترمیم کے تحت 17 وزارتیں صوبوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور یہ عمل رواں سال 30جون تک مکمل کرنے کا وقت دیا گیا تھا۔ اس سے قبل دو مرحلوں میں پانچ، پانچ وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی کی جا چکی ہے۔
اٹھاریوں ترمیم کے ذریعے آئین میں کی گئی اصلاحات کے نفاذ کے لیے قائم کردہ کمیشن کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ تیسرے اور آخری مرحلے میں وزارتوں کی منتقلی سے مجموعی طور پر 37,400 سے زائد افسران اور ملازمین متاثر ہوں گے۔
لیکن اُن کا کہنا تھا کہ وزارتوں سمیت بیشتر ملازمین کی خدمات بھی صوبوں کو منتقل کر دی جائیں گی، جب کہ بقیہ تقریباً 2,000 وفاقی ملازمین کو اسلام آباد ہی میں مختلف محکموں میں کھپایا جائے گا۔
”ہماری کوشش یہی رہی ہے کہ اس تمام عمل میں ملازمین متاثر نا ہوں اور اس عزم کو ہم نے تینوں مرحلوں میں پورا کیا ہے۔“
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ منتقلی کا عمل مکمل ہونے سے صوبوں کو خاصی حد تک خودمختاری حاصل ہو گئی ہے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے وزارتوں کی منتقلی کو صوبوں اور وفاق دونوں ہی کی جیت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ذمہ داریوں اور وسائل کی منتقلی کے بعد اب صوبے اپنے علاقوں میں ترقی نا ہونے کا الزام مرکز پر نہیں لگا سکیں گے اور اُنھیں عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
”اور جہاں جہاں علیحدگی پسندی کا مسئلہ موجو ہے، وہ (گروپ) سیاسی موت مر جائیں گے کیوں کہ اس عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی، جمہوری اور آئینی طریقوں سے حقوق کا حصول ممکن ہے ۔“
افراسیاب خٹک کا اشارہ بظاہر ملک کے جنوب مغربی بلوچستان صوبے کی طرف تھا جہاں علیحدگی پسند بلوچ عسکری تنظیموں کی تخریبی کارروائیاں پاکستان حکام کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہیں۔