رسائی کے لنکس

’یوم صوبائی خودمختاری‘


اس سرحد پر تعینات فوجوں اور لائن آف کنٹرول کی تصاویر
اس سرحد پر تعینات فوجوں اور لائن آف کنٹرول کی تصاویر

نظریاتی اختلافات کے باوجود متفقہ طور پر منظور کی گئی ترمیم میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی صدر سے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا ہے اور خصوصاً بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد سے علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے والے عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔

فروری 2008ء انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پارلیمان نے گزشتہ سال اپریل میں متفقہ طور پر آئین میں اٹھارویں ترمیم متعارف کرائی تھی جس کا بنیادی مقصد خودمختاری سے متعلق صوبوں کے تحفظات کو دور کرنا تھا۔ یکم جولائی کو مکمل طور پر نافذالعمل ہونے والی اٹھارویں آئینی ترمیم بقول ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ان تحفظات کو دور کرنے میں مدد دے گی۔

اس ترمیم کے تحت تین مرحلوں میں 17 وفاقی وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی کا عمل 30 جون کو مکمل ہو گیا اس لیے حکومت نے جمعہ کو صوبائی خودمختاری کے دن کے طور پر منایا۔

پاکستان کے پسماندہ صوبے خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختون خواہ ایک طویل عرصے سے شکایت کرتے آ ئے ہیں کہ اُن کی پسماندگی کی بڑی وجہ بیشتر اختیارات مرکزی حکومت کے پاس ہونا ہے۔لیکن حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مطابق وزارتوں کی منتقلی سے جہاں صوبے اپنی ترجیحات کے مطابق منصوبہ بندی کر سکیں گے وہیں وہ مستقبل میں ترقی نا ہونے کی ذمہ دار ی وفاقی حکومت پر نہیں ڈال سکیں گے۔

بعض ناقدین وفاقی وزارتوں کی منتقلی کے اقدام کو قبل ازوقت قرار دے رہے ہیں کیوں کہ اُن کے خیال میں صوبوں کو ایسی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں جنھیں وہ فی الوقت نبھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نا ہی اُن کے پاس ان اہم وزارتوں کے اُمور موثر انداز میں چلانے کے لیے بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔

لیکن اٹھارویں آئینی ترمیم پر دستخط کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس تنقید کو بلاجواز قرار دیتی ہیں اور اس موقف کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جمعہ کو ایک بار پھر کیا۔”جب آپ کے پبلک سیکٹر پروگرام تمام کے تمام صوبائی سطح پر آ جائیں گے، جس میں عوام کا بنیادی مسئلہ بہتر تعلیم کا ہے، بہتر طبی سہولتوں کا ہے، بہتر نبیادی ڈھانچے کا ہے، تو یہ سب چیزیں جب آپ کے پاس ایک مضبوط بنیاد نہیں ہو گی تو کوئی بھی حکومت نچلی سطح پر ان تمام بنیادی مسائل کے تدارک کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کر سکتی۔“

فردوس عاشق اعوان
فردوس عاشق اعوان

پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا کہنا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد سے ملک میں پارلیمانی نظام کو تقویت ملے گی۔

نظریاتی اختلافات کے باوجود متفقہ طور پر منظور کی گئی ترمیم میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی صدر سے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا ہے اور خصوصاً بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد سے علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے والے عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجونے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ”میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑا قدم ہے۔ اس وقت پاکستان کا آئین صوبائی خودمختاری کے حوالے سے خطے میں سب سے بہتر ہے۔“انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس اقدام کو سیاسی سطح پر انتہائی خوش آئند قرار دیا جائے گا کیوں کہ یہ صوبوں کے لیے یہ ”بہت بڑا کارنامہ ہے“۔

عوامی نیشنل پارٹی کے نائب سیکرٹری جنرل ہاشم بابر کا کہنا تھا کہ صوبوں کے مالی وسائل بھی زیادہ ہو گئے ہیں جس کے بعد وہ اپنی حکمت عملی وضع کر سکیں گے۔ ”آپ تعلیم کی مثال لیں، صحت کی مثال لیں یہ وہ محکمے ہیں جو صوبوں کے پاس اس لیے ہونے چاہیئں کہ ہر صوبے کے اپنے ثقافتی اور سیاسی ڈائنامکس ہوتے ہیں اب ہر صوبہ اپنے مقامی حالات کو دیکھ کر اپنی پالیسی وضع کر سکے گا۔ “

XS
SM
MD
LG