ایک امریکی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اسقاط حمل کا تجربہ کرنے والی عورتیں اپنا حمل ضائع ہونےکی وجوہات کےحوالے سے شک و شبہات میں مبتلا ہو کرخود کو قصور وار سمجھنے لگتی ہیں جس سے ان میں احساس ندامت اور شرمندگی کےجذبات پیدا ہوتے ہیں۔
یہ مطالعہ ایک آن لائن سروے کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس میں 1084 عورتوں اور شادی شدہ جوڑوں نے حصہ لیا۔ نتیجے سے ظاہر ہوا کہ تقریباً نصف شرکاء نے اسقاط حمل کے لیے خود کو قصور وار ٹھہرایا۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق مطالعے میں شامل ہر پانچ میں سے ایک خاتون نے بتایا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ حمل کے دوران ان سے کچھ غلط ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا بچہ کھو بیٹھی ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں عورتوں نے کہا کہ وہ اسقاط حمل کے بعد خود کو اکیلا اور اندر سے خالی محسوس کرتی ہیں۔
محققین کے مطابق سروے میں شامل بڑی تعداد میں عورتیں اسقاط حمل کی وجوہات کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار پائی گئیں، جن میں سے ایک تہائی کو یقین تھا کہ اسقاط حمل شدید ذہنی دباؤ کے واقعات کے نتیجے میں سکتا ہے۔
سائنسی جریدے 'اوبسٹیٹرکس گائنا کالوجی' میں شائع ہوئی تحقیق کے مطابق 64 فیصد عورتوں نے کہا کہ حاملہ عورت کی بے احتیاطی اور وزنی چیزیں اٹھانے کی وجہ سے اسقاط حمل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہر پانچ میں سے ایک خاتون نے کہا کہ ماضی میں مانع حمل ادویات کھانے کی وجہ سے عورتوں کا حمل ضائع ہو سکتا ہے۔
اسقاط حمل کا تجربہ کرنے والے 57 فیصد جوڑوں نے بتایا کہ انھیں حمل ضائع ہونے کے بعد اس کی وجوہات کےحوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔
نیویارک میں یاشیوا یونیورسٹی کے البرٹ آئن اسٹائن کالج اور میونٹے فیورے میڈیکل سینٹر سے منسلک محققین نے کہا کہ اس قسم کی غلط فہمیاں اسقاط حمل کا تجربہ کرنے والی عورتوں کے دکھ میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
ڈاکٹر زیوی ولیمز ابتدائی اسقاط حمل کے پروگرام کی ڈائریکٹر ہیں وہ کہتی ہیں کہ "ہمارے سروے کے نتائج میں بڑے پیمانے پر ان غلط فہمیوں کی نشاندہی ہوئی ہے، جو اسقاط حمل کی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ کیونکہ اسقاط حمل بہت عام ہے لیکن شاید ہی کبھی کسی نے اس پر بات کی ہے بہت سی عورتیں اور شادی شدہ جوڑے اسقاط حمل کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہو کر خود کو اکیلا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ لہذا ضرورت ہے کہ لوگوں کو اسقاط حمل کے بارے میں آگاہ کیا جائے جس سے اس کے ساتھ شرمندگی اور جگ ہنسائی کو کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔"
سروے میں 55 فیصد عورتوں کے جوابات شامل تھے جن کی عمریں 18 سے 49 سال کے درمیان تھیں۔ ان سے اسقاط حمل کی وجوہات کے بارے میں 33سوالات پوچھے گئے تھے۔
نتائج کے مطابق 55 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اسقاط حمل عام نہیں ہے اور اندازا تمام حاملہ عورتوں میں سے صرف 6 فیصد واقعات میں عورتوں کا حمل ضائع ہوتا ہے۔
لیکن محققین کے نتائج نے واضح کیا کہ سچائی یہ ہے کہ ہر چار میں سے ایک حمل کا اختتام اسقاط پر ہوتا ہے۔
شرکاء میں سے ہر پانچ میں سے ایک کو یقین تھا کہ طرز زندگی مثلاً تمباکو نوشی، ادویات، منشیات اور الکوحل کا استعمال دوران حمل اسقاط کی واحد سب سے بڑی وجہ ہے اور یہ جینیاتی اور طبی وجوہات کے مقابلے میں اسقاط کی زیادہ عام وجہ ہے۔
اس خیال کے برعکس محققین نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ 60 فیصد اسقاط حمل کے واقعات جینیاتی مسائل کی وجہ ہوتے ہیں۔
دوسروں سے اسقاط حمل کے تجربات سننے کی اہمیت کے حوالے سے نصف شرکاء کی تعداد نے بتایا کہ انھیں اپنا دکھ اس وقت کم محسوس ہوا جب ایک دوست نے ان سے اپنے اسقاط حمل کے تجربے کے ذکر کیا۔
اسی طرح 28 فیصد نے کہا کہ مشہور شخصیات کے اسقاط حمل کے بارے میں جاننے کے بعد انھیں بھی اپنا درد کم محسوس ہونے لگا تھا۔
مطالعہ کے مصنفین نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا کہ اسقاط حمل کا تجربہ کرنے والے جوڑوں کو دوستوں یا رشتہ داروں کی جانب سے اسقاط حمل کی وجوہات کے بارے میں مشاورت حاصل ہونی چاہیئے اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے اداروں کو قبل از وقت پیدائش کے حوالے سے حاملہ عورتوں کو شعور دینا چاہیے۔