رسائی کے لنکس

لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا احتجاج


لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا احتجاج
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا احتجاج

ناقدین کا ماننا ہے کہ دہشت گردی جیسے سنگین جرائم سے متعلق قوانین میں بعض کمزوریاں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں کو مشتبہ افراد کو غیر قانونی تحویل میں رکھنے کا بظاہر جواز فراہم کرتی ہیں کیوں کہ ایسے افراد پر چلائے گئے مقدموں میں جرم ثابت ہونے کی شرح انتہائی کم ہے کیوں عدالتیں ناکافی شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو بری کر دیتی ہیں۔

’’لاپتہ افراد‘‘ کی بازیابی کے لیے اُن کے رشتہ داروں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوششوں کے سلسلے میں ان دنوں پارلیمان اور سپریم کورٹ کی عمارتوں سے چند سو گز کے فاصلے پر گزشتہ کئی روز سے احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے۔

سخت سردی کے باوجود لاپتہ افراد کے یہ رشتہ دار دن رات اس کیمپ میں بسیرا کیے ہوئے ہیں جب کہ اُن سے اظہار ہمدردی کے لیے سیاسی جماعتوں کے رہمنا بھی وقتاً فوقتاً احتجاجی کیمپ کا دورہ کر رہے ہیں۔

اس احتجاجی کیمپ کے منتظمین میں آمنہ مسعود جنجوعہ بھی شامل ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے خاوند کو جولائی 2005ء میں فوج کے خفیہ اداروں نے گرفتار کر لیا تھا اور تاحال اُن کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ
آمنہ مسعود جنجوعہ

’’سپریم کورٹ ہر لاپتہ فرد کو عدالت میں پیش کرنے کے احکامات دے سکتی ہے، تو وہ یہ آئینی حق استعمال کرے اس سے پہلے کہ لاشیں ہمارے حوالے کی جائیں۔‘‘

سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ لاپتہ افراد میں بڑی تعداد اُن بلوچ قوم پرستوں کی ہے جو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جہد و جہد کر رہے ہیں۔

’’بجائے اس کے کہ ہم لوگوں کے حقیقی مسائل کو حل کریں، اگر ہم زور زبردستی اور طاقت کے ذریعے سے ان کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ ملک کے اپنے استحکام اور سالمیت کے لیے بھی ایک خطرہ ہے‘‘۔

فرزانہ باری
فرزانہ باری

ناقدین کا ماننا ہے کہ دہشت گردی جیسے سنگین جرائم سے متعلق قوانین میں بعض کمزوریاں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں کو مشتبہ افراد کو غیر قانونی تحویل میں رکھنے کا بظاہر جواز فراہم کرتی ہیں کیوں کہ ایسے افراد پر چلائے گئے مقدموں میں جرم ثابت ہونے کی شرح انتہائی کم ہے کیوں عدالتیں ناکافی شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو بری کر دیتی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ قوانین کو موثر بنانے کی ذمہ داری پارلیمان پر عائد ہوتی ہے جو اُن کے بقول اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کو زیادہ بااختیار بنانے سے متعلق آئینی مسودہ طویل عرصے سے پارلیمان کی قائمہ کمیٹی میں زیر بحث ہے۔

تاہم اس ہی دوران مذہبی پارٹی جماعت اسلامی نے سینیٹ میں ایک بل متعارف کرایا ہے جس میں مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیے بغیر اُنھیں تفتیش کی غرض سے تحویل میں رکھنے کی میعاد کو تین ماہ سے کم کر کے ایک ماہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

پارلیمان میں جہاں اس بل کی حمایت کی جا رہی ہے وہیں بعض اراکین کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی تبدیلی کرنے سے دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

حکمران اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو خودکش بیلٹ باندھ کر امام بارگاہ میں، مزار میں چلا یا کسی کے گھر میں چلا جاتا ہے وہ اکیلا نہیں ہوتا، اس کے پیچھے پوری دہشت گرد تنظیم ہوتی ہے، اس کو ڈھونڈنے کے لیے ہمارے خفیہ اداروں، پولیس، ایف آئی اے کو وقت چاہیئے ہوتا ہے۔‘‘

پیپلز پارٹی حکومت کا موقف ہے کہ زیادہ تر افراد سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں لاپتہ ہوئے، لیکن وہ ان کی بازیابی کے لیے پر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق تمام دعوے سچائی پر مبنی نہیں۔

وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک
وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک

’’اگر وہ زندہ اور گرفتار ہیں تو یقیناً ہم اُن کو بازیاب کرائیں گے لیکن اگر وہ خود ہی جنگ میں چلے گئے ہیں یا افغانستان میں جا کر لڑائی کر رہے ہیں یا کسی کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس عرصے میں وہ کہیں مارے گئے ہیٕں تو میرا خیال ہے کہ اُس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘

پاکستان کی سپریم کورٹ میں بھی لاپتہ افراد سے متعلق مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے جب کہ عدالت عظمیٰ کے سابق جج جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمییشن بھی اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG