پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں موبائل فون ٹاورز کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کا سلسلہ جاری ہے۔
رواں ماہ تین موبائل ٹاورز کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹاورز تین مختلف اضلاع میں موجود تھے جنہیں نامعلوم عسکریت پسندوں نے نشانہ بنایا۔
موبائل فونز ٹاورز کی تباہی کے نتیجے میں ہزاروں قبائلی موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔
یاد رہے کہ شمالی وزیرستان افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقہ ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی حاجی مجتبیٰ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سب سے پہلے تحصیل میر علی کے علاقے نورک میں نامعلوم افراد نے نجی موبائل فون کمپنی کے ٹاور کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا تھا۔
اس کے بعد تحصیل میران شاہ کے گاؤں ھمزونی اور پھر میر علی کے گاؤں حسوخیل میں بھی ایک ٹاور کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا گیا۔
حسوخیل میں ہونے والا دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی گونج دور دور تک سنی گئی۔ تاہم اب تک کسی فرد یا گروہ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مبینہ دہشت گرد ان واقعات میں ملوث ہیں لیکن اس سلسلے میں سیکیورٹی حکام نے کسی کو گرفتار یا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
اس عرصے میں شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی بالخصوص عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان کئی بار جھڑپیں بھی ہوئیں ہیں جن میں دونوں جانب سے بھاری مالی و جانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔
شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشنز لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) موجود ہے لیکن اس کی انٹرنیٹ سہولیات انتہائی محدود ہیں۔
پی ٹی سی ایل کے ذریعے انٹرنیٹ سہولت حاصل کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے اداروں سے پیشگی اجازت لازمی ہے۔ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بالخصوص نوجوان اور طلبہ انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں انٹرنیٹ سروس کی فراہمی میں مشکلات کے خلاف ایک قبائلی شخص نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
درخواست پر سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح شمالی وزیرستان سمیت تمام قبائلی اضلاع میں بھی تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث بیشتر تعلیمی ادارے طلبہ کو آن لائن تعلیم دے رہے ہیں۔
لیکن قبائلی علاقہ جات میں سست رفتار انٹرنیٹ کے باعث یہاں کہ طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ متاثرہ طلبہ اور مقامی سیاسی رہنما قبائلی اضلاع میں انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔