رسائی کے لنکس

عباس جعفری: فیشن کی دنیا کا ستارہ اب سیاسی افق پر


عباس جعفری کی ماڈلنگ کے دوران لی جانے والی ایک تصویر (فائل فوٹو)
عباس جعفری کی ماڈلنگ کے دوران لی جانے والی ایک تصویر (فائل فوٹو)

عباس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے پاس ابھی بھی وقت ہے وہ اپنے لوگوں کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہے، بصورتِ دیگر نو ماہ بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں میئر شپ بھی ان کے پاس سے چلی جائے گی۔

ُٓسیاست میں دلچسپی اب صرف عام آدمی یا سیاست دانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ شوبز اور اسپورٹس اسٹارز بھی نہ صرف سیاست میں دلچسپی لینے لگے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً سیاسی میدان میں قسمت بھی آزماتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں جو جماعت شوبز سلیبریٹیز میں سب سے زیادہ مقبو ل ہے وہ تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ہے۔ گلوکار ابرارالحق سے لے کر اداکار حمزہ علی عباسی تک بہت سے اسٹارز پی ٹی آئی کے حامی اور کارکن ہیں۔

ابرارالحق دو مرتبہ 2013ء اور 2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑ چکے ہیں مگر جیت نہیں سکے۔ لیکن کراچی سے تعلق رکھنے والے ماڈل عباس جعفری کی قسمت نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

عباس جعفری، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ
عباس جعفری، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ

عباس جعفری پہلی بار سیاسی میدان میں اترے اور میدان مار لیا۔ وہ حالیہ انتخابات میں کراچی سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔

بہت سے فیشن شوز اور ’اسٹائل ایوارڈز‘ میں ریمپ پر واک کرنے والے سید محمد عباس جعفری نے کراچی کے حلقہ پی ایس 125 سے الیکشن لڑا اور 30,687 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔

ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے سابق رکنِ سندھ اسمبلی عبدالحسیب تھے جو رابطہ کمیٹی کے بھی اہم رکن رہے ہیں۔ ان کا پارٹی میں بھی خاصا بڑا حلقہ رہا ہے لیکن عوام نے ان کے مقابلے میں عباس جعفری کو ترجیح دی اور یوں عباس جعفری انتخابات میں کامیاب قرار پائے۔

عباس جعفری کی دیگر ماڈلز کے ساتھ ریمپ واک
عباس جعفری کی دیگر ماڈلز کے ساتھ ریمپ واک

ماڈلنگ، فلاحی کام اور اب سیاست
عباس جعفری کی جیت کو میڈیا میں محض اسی لیے ہی اہمیت نہیں دی جا رہی کہ وہ ایک ماڈل ہیں بلکہ اس سے بھی بڑا کمال ان کی ایک ایسے حلقے سے فتح ہے جو ایم کیو ایم کا آبائی گھر ہے کیوں کہ یہاں عزیز آباد اور ایم کیو ایم سابق صدر دفتر 'نائن زیرو' بھی واقع ہے۔ یہاں سے گزشتہ 30 برسوں کے دوران کسی اور جماعت کا جیتنا ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔

عباس جعفری نے نے ناممکن کو ممکن کس طرح کر دکھایا؟

وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، "کریڈیٹ کپتان یعنی عمران خان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے۔ کپتان کی 22 سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج بچہ بچہ اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔ اس شہر میں بدامنی عام تھی۔ لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے تھے۔ لوگوں کو پولیس سے ان گنت شکایات تھیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہر میں امن قائم کیا تو عوام کو راحت نصیب ہوئی۔ پچھلے دو، تین سال سے لوگوں کو قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے لیے پرچیاں آنا بند ہوگئیں۔ بھتے اور دھمکیاں آنا ختم ہوگئیں۔ کراچی کی گروتھ رک گئی تھی۔۔۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اب یہ پھر سے وفاق سے جڑ گیا ہے۔ کراچی والے قومی دھارے میں شریک ہوگئے ہیں۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔"

’دارالسکون‘ میں ایک بچی کے ہمراہ
’دارالسکون‘ میں ایک بچی کے ہمراہ

عباس جعفری کا کہنا ہے کہ انہیں پی ٹی آئی نے ٹکٹ ان کے سماجی کاموں کی بنیاد پر دیا۔

وہ کیا کام ہیں؟ اس کے جواب میں عباس جعفری نے وی او اے کو بتایا، "میں کئی سال سے پی ٹی آئی کے لیے مختلف عہدوں پر کام کرتا رہا ہوں۔ سیکریٹری کلچر اور یوتھ ونگ میں بھی رہا۔ یونین کونسل کی سطح پر بھی کام کیا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی سرگرم رہا جب کہ ذاتی حیثیت سے بھی بہت سے سماجی کاموں میں حصہ لیتا رہا۔ سندھ کے قحط زدہ علاقوں میں آر او پلانٹ لگایا۔ ’دارالسکون ‘سے جڑا ہوا ہوں۔ رمضان پیکیجز کے لیے آگے آیا۔ یہ وہ کام ہیں جنہیں میں کبھی جتانا نہیں چاہتا تھا، اس لیے خاموشی سے کام کرتا رہا۔"

عباس جعفری کے بقول، "ایسے کام گنوائے نہیں جاتے۔ یہ سارے کام میں اس وقت سے کر رہا ہوں جب میرے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں تھا۔ پی ٹی آئی اور خان صاحب نے میرا جذبہ دیکھ کر مجھے الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں کامیاب رہا۔"

فیشن انڈسٹری میں خدمات پر عباس جعفری کو دو مرتبہ ’لکس اسٹائل ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔ ابھی انہوں نے رکنِ سندھ اسمبلی کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف نہیں لیا لیکن ہوگا یہی کہ اگلے کچھ دنوں میں وہ سیاسی زندگی اور ذمے داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں گے۔ تو کیا ایسے میں وہ فیشن انڈسٹری کو خیر باد کہہ دیں گے؟

اس سوال پر ان کا جواب نفی میں تھا۔ "میں فیشن انڈسٹری کا سفیر ہوں۔ اسی نے مجھے عزت دی۔ اس سے دوری کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن جس حلقے کے لوگوں نے مجھے ووٹ دیا، مجھ پر اعتماد کیا، ان کے مسائل حل کرنا اب میری پہلی ترجیح ہوگی۔"

عباس جعفری کے بقول، "اپنی انتخابی مہم کے دوران میں گھر گھر گیا۔ سب کو ایک بڑے مسئلے پانی کی کمی میں گھرا پایا۔ مساجد تک میں وضو کے لیے پانی نہیں تھا۔ لوگ ہاتھ پھیلا پھیلا کر پانی کا مطالبہ کرتے تھے۔ کئی علاقوں میں تو لوگوں کو عید کا دن بھی بغیر پانی کے گزارتا دیکھا۔ ان کی حالت دیکھ کر کئی بار تو میں رو پڑا۔ کہیں سیوریج کا مسئلہ خوف ناک حد تک بڑھا ہوا پایا تو کہیں صحت کے مسائل نمایاں نظر آئے۔"

عمران خان اور جہانگیر ترین کے ہمراہ
عمران خان اور جہانگیر ترین کے ہمراہ

وی او اے کے سوال پر کہ کراچی میں ایم کیو ایم بے شک کئی سیٹیں ہار گئی لیکن بعض علاقوں میں اب بھی اس کا خاصا اثر و رسوخ ہے اور کئی نشستوں پر وہ جیتی بھی ہے۔ ایسے میں متحدہ کی واپسی بھی ممکن ہے اور عباس کو ٹف ٹائم بھی مل سکتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ان کی کیا حکمتِ عملی ہوگی؟ عباس کا کہنا تھا،

"اول تو میں ایم کیو ایم کو مانتا ہی نہیں کیوں کہ وہ خود کنفیوز ہیں۔ پہلے وہ فیصلہ کریں کہ ایم کیو ایم کا کون سا دھڑا اہم ہے، کون سا نہیں۔ دوسرے یہ کہ مجھے نہیں لگتا کہ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے سکے گی۔ پارٹی بری نہیں، ہر پارٹی میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن میرا اختلاف یہ ہے کہ یہ تو عام لوگوں کی پارٹی تھی، ان کا ووٹر ایک عام اور متوسط طبقے اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتا تھا، پھر اس کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں کہاں سے آگئیں؟ ووٹر وہیں رہ گیا، پارٹی نمائندہ امیر سے امیر ہو گیا۔"

عباس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے پاس ابھی بھی وقت ہے وہ اپنے لوگوں کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہے، بصورتِ دیگر نو ماہ بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں میئر شپ بھی ان کے پاس سے چلی جائے گی۔

ان کے بقول عمران خان حلف اٹھاتے ہی قانون سازی پر توجہ دیں گے جس سے بدعنوان عناصر کے لیے زمین تنگ پڑجائے گی اور عام آدمی سکھ کا سانس لے گا۔ "میرے خیال میں تو ایم کیو ایم کو عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے ورنہ ایم کیو ایم ماضی کا حصہ بن جائے گی۔"

XS
SM
MD
LG