رسائی کے لنکس

ادب کا نوبیل پرائز فرانس کے ادیب پیٹرک مودیانو کے نام


اُن کے معرکة الآرا ناولوں میں اُن یادداشتوں کو قلم بند کیا گیا ہے، جن کا تعلق انسانی تقدیر کے ناقابلِ فہم دریچوں سے ہے۔ اُن کی کاوشوں کی ورق گردانی سے جرمنی کے زیر تسلط اُن کے ملک کے حالات کا اصل نقشہ اُبھرتا ہے

فرانسسی ناول نویس، پیٹرک مودیانو نے سنہ 2014کا ادب کا نابیل پرائز جیتا ہے، جِن کی زندگی بھر کی عرق ریزی نازی تسلط اور اُن کے ملک پر اُس کے اثرات سے پردہ اٹھانے سے متعلق ہے۔

اسٹاک ہوم میں، سویڈش اکیڈمی نے جمعرات کے روز بتایا کہ ادارے نے 69 برس کے مودیانو کو 11 لاکھ ڈالر کے اعزاز سے نوازا ہے۔ اُن کے معرکة الآرا ناولوں میں اُن یادداشتوں کو قلم بند کیا گیا ہے، جن کا تعلق انسانی تقدیر کے ناقابلِ فہم دریچے کھلنے سے ہے۔ اُن کی کاوشوں کی ورق گردانی سے جرمنی کے زیر تسلط اُن کے ملک کے حالات کا اصل نقشہ اُبھرتا ہے۔

مودیانو سنہ 1945 میں پیرس کے مضافات میں پیدا ہوئے، جس سے دو برس قبل یورپ میں جنگ عظیم دوئم کا خاتمہ ہوا۔ اُن کے والد اطالوی نژاد یہودی تھے، جب کہ اُن کی ماں بیلجئم کی ایک اداکارہ تھیں، جن سے مودیانو کے والد کی ملاقات اُس وقت ہوئی جب پیرس زیرِٕ تسلط تھا۔


یہودی اثر، نازیوں کا قبضہ اور شناخت ویرانی کی نذر ہونے کے المیے نے لکھاری کو اپنی ناولوں کے لیے دل دہلانے والے موضوع فراہم کیے۔ سنہ 1968میں شائع ہونے والے اُن کے ناول ’لا پیلس دولے‘ کو جرمنی نے ہولوساکٹ کے بعد کے عہد کی ایک عہد آفریں ادبی کاوش کا درجہ دیا۔

اُن کی کچھ کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ ہوا، جن میں ’اے ٹریس آف میلس‘، ’ہنی مون‘ اور ’مِسنگ پرسن‘ نامی ناول شامل ہیں۔

مودیانو 107 ویں لکھاری ہیں جنھیں عالمی ادب کا نابیل پرائز دیا گیا ہے، جب کہ یہ نمایاں اعزاز حاصل کرنے والے وہ فرانس کے گیارہویں نامور ادیب ہیں جو اپنے شعبے میں کمال کے درجے پر پہنچے۔ اب وہ جان اسٹائن بیک، ولیم فوکنر اور پیبلو نرودا جیسے معروف لکھاریوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG