پاکستان کی فوج نے بتایا ہے کہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں مشتبہ دہشت گردوں کے حملوں میں پانچ فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ دس حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" نے پیر کو ایک بیان میں بتایا کہ اتوار کو دیر گئے مبینہ طور پر سرحد پار افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کی تین چوکیوں پر حملہ کیا۔
سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دس مشتہ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
بیان کے مطابق بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردوں کے حملے کا بھرپور جواب دینے پر فوج کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد مشترکہ دشمن ہیں اور سرحد پر ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ماضی میں بھی افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں مبینہ طور پر سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد ایسے حملے کرتے رہے ہیں۔
یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی دیکھی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر گزرگاہوں کو بند کیا جانا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خاتمے اور یہاں سلامتی کی صورتحال معمول پر آنے تک یہ راستے بند رہیں گے۔
سرحدی گزرگاہوں کی بندش پر افغانستان نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کر رکھا ہے اور اس کا استدلال ہے کہ پاکستان اپنی جانب ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے جو مبینہ طور پر افغانستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
پاکستان اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنے ہاں ہر قسم کے دہشت گرد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے اور کابل کو چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین مبینہ طور پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔
کابل اس دعوے کو مسترد کرتا ہے۔