رسائی کے لنکس

معین اختر کے بارے میں سینئر فنکاروں کے تاثرات


معین اختر کے بارے میں سینئر فنکاروں کے تاثرات
معین اختر کے بارے میں سینئر فنکاروں کے تاثرات

معین اخترنے پچھلے برس ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی استعداد میں پاکستان کو کیا دیا۔

اُن کے الفاظ تھے: ’ہم کیسے لوگ ہیں؟ ہم کوئی چیز۔۔۔کیا چیز ٹھیک ہے ہم میں؟ مجھے یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا ، کیونکہ میں اِس ملک کا ایک رہنے والا ہوں۔ لیکن میں اِس لیے کہوں گا کہ مجھے اِس ملک سے بہت محبت ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ملک نے مجھے کیا دیا۔ میں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ میں نےاپنی capacityمیں ملک کو کیا دیا؟‘

معین اختر نے اِس پروگرام میں یہ پیروڈی گا کر سنائی:

’سب کا دل اور جان تھا

کتنا میں نادان تھا

کتنا میں انجان تھا

ابھی کَل تو میں جوان تھا

جوان تھا، حسین تھا

بہت ہی دل نشین تھا

سرور ہی سرور تھا

جوانی کا غرور تھا

جس جگہ بھی جاتا تھا

حسینوں کو ہی پاتا تھا

اُن کا مجھ کو چاہنا

میرے دل کو بھاتا تھا

مگر یہ کل کی بات ہے

اور، آج خالی ہاتھ ہے۔۔۔‘

بات یہ ہے کہ معین اختر بلا شبہ وہ شخصیت ہیں جو اِس دنیا سے خالی ہاتھ نہیں گئے، بلکہ اِس دنیا کو اتنا کچھ دے کر اوربہت سی محبتیں لے کر گئےہیں۔

پچھلے ہفتےکے روزمعین اختر کی یاد میں نشر کیے گئے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے، قاسم جلالی نے’ وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ معین اختر سے اُن کا 30برس پرانا ساتھ تھا، اور مل کر اچھےسے اچھےاور ہمیشہ نئےideasپر کام کیا۔

قاسم جلالی نے بتایا کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پر’لاکھوں میں ایک‘ کے عنوان سے ون مین شو پروگرام میں معین اختر نےلاجواب فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ پھر وہ ’ضیا محی الدین شو‘ میں آئے اور آخر میں’لوز ٹاک‘ کامیڈی پروگرام میں اپنے جوہر دکھائے۔ اُن کے بقول، وہ ایک باصلاحیت فنکار تھے جِن کے لاکھوں کروڑوں مداح تھے۔

ظہیر خان کا کہنا تھا کہ،’ معین اختر انسان کی نفسیات سے کھیلتا تھا۔ آج وہ اتنی قدآور شخصیت بن گیا تھا، وہ ایک کرشمہ ساز شخصیت کا مالک تھا۔‘

قاضی واجد نے کہا کہ معین اختر اچھے انسان اور بہترین فنکار تھے۔ اُن کے بقول، معین اختر نے اِس قدر اچھے اچھے کردار کیے کہ یہ اُنہی کا خاصہ تھا۔ ’اُنھوں نے ہر چیز کا بہت خیال رکھا، سوائے اپنی صحت کے۔ اُن کو مختلف امراض لاحق تھے۔ بائی پاس تک ہو چکا تھا۔ سانس کی بھی تکلیف تھی۔ لیکن، اسٹیج پر آتے تھے تو لگتا تھا کہ ایک صحت مند آدمی کام کررہا ہے۔ اُس وقت اُن کی بیماری، دکھ سب ختم ہوجاتے تھے۔‘

قاضی واجد نےکہا کہ، ’معین اخترعجیب وغریب طبیعت کا آدمی تھا۔ وہ اپنی دنیا الگ بسائے ہوئےتھا۔‘

بہروز سبزواری کا کہنا تھا کہ معین اختر کمال کی شخصیت کے مالک تھے۔اُن کے بقول، ’اُن کے دوستوں کا اتنا بڑا سرکل نہیں تھا۔ جو اُن کے ساتھ کام کرنے والے تھے، وہی اُن کے دوست تھے۔ وہ تقاریب میں بہت کم جایا کرتے تھے۔ اور گئے بھی تو چند لمحات کے لیے۔‘

اداکار شکیل احمد کے بقول، ’اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو معین اختر دیا جِن کا کوئی ثانی نہیں تھا، اور یہ فخر اور افتخار ہمارے ہی حصے میں آیا۔‘ اُن کے الفاظ میں، ’ معین اختر بہت بڑا آرٹسٹ تھا ۔ یہ اِس ملک، برِ صغیر کا نہیں پوری دنیا کا سانحہ ہے، جہاں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ، وہ سب اُن کے چل بسنے پر دکھی ہیں۔‘

شہزاد رضا نے معین اختر کے بھلے مانس رویے کا ذکر کیا۔ اُن کے الفاظ میں ’معین اختر ایک سچے پاکستانی تھے۔ وہ جہاں، جس ملک میں بھی جاتے تھے سب سے پہلے اِس بات کا اظہار کرتے تھے کہ میں پاکستانی ہوں۔‘

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG