معروف دانشور اور ’جیو نیٹ ورک‘ کے صدر، عمران اسلم کا کہنا ہے کہ معین اختر’ ایک اکیڈمی، ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے‘ اور اُنھیں یاد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ اُن کا جو بھی کام موجود ہے اُس کا مطالعہ کیا جائے، سیکھا جائے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں جب اُن سے پوچھا گیا کہ معین اختر کی یاد منانے کا بہتر طریقہ کیا ہوسکتا ہے، اُنھوں نے کہا کہ معین اختر نے کئی کیریکٹر ز کا کردار خوبی کے ساتھ ادا کیا، جو گنیز بک آف ریکارڈز کو توڑنے کے برابر ہے۔
عمران اسلم کا کہنا تھا کہ معین اختر میں ایک سنجیدگی تھی۔ اُن کے الفاظ میں، ’وہ بیٹھ کر سنجیدگی سے گفتگو کیا کرتے تھے جو کہ کمیڈینز کا ہمیشہ ایک پہلوہوتا ہے۔ ہم اُنھیں یہی کہتے تھے کہ یار تم ہنساتے تو بہت ہو اور ہنستے ہنستے رلا بھی دیتے ہو۔ یہ کام بڑے بڑے کیمڈینز کی علامت ہواکرتی ہے۔‘
معین اختر کی خاص بات یہ تھی کہ وہ فن کے ہر شعبے میں نمایاں تھے اور کمال کا درجہ رکھتے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ لیاقت سولجر، بابو برال، مستانہ اور اب معین اختر ہم میں نہیں رہے، اور اِن سارے چوٹی کے کمیڈینز کا یکے بعد دیگرے بچھڑجانا ایک المیے سے کم نہیں۔ اُن کے بقول، ’ایسا ہے کہ آج کل کے ماحول میں اگر اُن کے ساتھ چند سیکنڈ گزارنے کی مہلت مل جائے تو ہم اپنی خوش قسمتی سمجھتے۔ وہ بڑے لوگ تھے۔ اُن کا بہت بڑا کام ہے۔‘
عمران اسلم نے کہا کہ اِن کمیڈینز کا چلا جانا بہت ہی بڑا نقصان ہے۔ اُن کے بقول، آج کل کے ماحول میں ہمیں اُن کی بہت ضرورت تھی۔
معین اختر 24دسمبر 1950ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور اُنہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: