بھارت میں اگلے ہفتے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے موقع پر نئی دہلی کے کئی حصوں میں ٹریفک اور لوگوں کی زندگیوں میں خلل ڈالنے والے بندروں کو اجلاس کے مقام سے دور رکھنے کے لیے جگہ جگہ کارڈ بورڈ پر اصل لنگوروں کے سائز کی تصاویر کے کٹ آؤٹس لگائے جار ہے ہیں ۔
بھارت کے دار الحکومت نئی دہلی کے کئی علاقوں کی مصروف سڑکوں کے آر پار بلاروک ٹوک دوڑتے بھاگتے چھوٹے سائز کے ریسس نامی یہ بندر ایک مسئلہ بن چکے ہیں جو خود کو اور گاڑیاں چلانے والوں ، دونوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور اکثر اوقات پیدل چلنے والوں یا وہاں کے رہائشیوں پر حملے کر دیتے ہیں۔
یہ بندر بڑے سائز کے کالے چہرے والے لنگور سے ڈرتے ہیں جنہیں حکام عام طور پر بندروں کو ڈرا کر شہر سے بھگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ پہلے ہی خاصا کار گر ہے۔
نئی دہلی میونسپل کارپوریشن ، این ڈی ایم سی کے وائس چئیر مین ستیش اوپادھییا نے بتایا کہ ، “ہم ان بندروں کو نہ تو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی ہٹا سکتے ہیں ، ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہی ہے کہ ہم انہیں ان کے جنگلاتی مقامات پر محدود کر دیں جو ہم کر رہے ہیں ۔”
واضح رہےکہ بھارت ایک ہندو اکثریتی ملک ہے جن کے مذہب میں بندروں کو مقدس خیال کیا جاتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہاں کسی کوانہیں نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے ۔
این ڈی ایم سی نے بڑی بڑی سڑکوں کے ساتھ ساتھ اور ان مقامات پر جہاں بندر کثرت سے گھومتے پھرتے ہیں ، لنگوروں کے کٹ آؤٹس نصب کرنے کے علاوہ تیس سے چالیس ایسے لوگوں کو متعین کیا ہے جو لنگوروں کی آوازوں کی نقل کر سکتے ہیں تاکہ بندروں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ وہاں زندہ لنگور گھوم پھر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ حکام نے بندروں کو ان کے جنگلاتی مقامات پر خوراک فراہم کرنا شروع کر دی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ اپنے علاقوں سے باہر نہ گھومیں.
اوپادھییا نے بتایا کہ “ہم نے گزشتہ ایک ہفتے سے شہر میں لنگوروں کے کٹ آؤٹس نصب کرنا شروع کیے ہیں اور ہم اس کا ایک مثبت اثر دیکھ رہے ہیں۔ بندرو ں نے ان علاقوں میں جانا چھوڑ دیا ہے جہاں یہ کٹ آؤٹس موجود ہیں ۔”
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ نئی دہلی نے ایک بڑی بین الاقوامی تقریب کے دوران بندروں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے لنگوروں کو استعمال کیا ہے ۔ 2010 میں بھی جب شہر میں کامن ویلتھ گیمز منعقد ہوئے تھے تو زندہ لنگوروں کو کرائے پر لے کر ڈیوٹی پر متعین کیا گیا تھا۔
انسانی آبادی بڑھنے سے بندروں کے آبائی جنگل کٹ رہے ہیں اور ان کی قدرتی رہائش گاہیں ختم ہو تی جا رہی ہیں جس سے ان کے غصے اور برہمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانوں پر ان کے حملے بڑھ رہے ہیں۔
بھارت میں ایک اندازے کے مطابق بندروں کی آبادی 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے جب کہ صرف آگرہ شہر میں اندازً 10 ہزار بندر آوارہ گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چیزیں چرا کر بھاگ جاتے ہیں۔ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں اور املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
بھارت میں ہرسال بندروں کے حملوں میں لوگ کی ایک بڑی تعداد زخمی ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں تاہم دارالحکومت دہلی کے 2016 کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق ، اس شہر میں بندروں کے کاٹنے کے 1900 سے زیادہ واقعات ہوئے۔
بھارت کے شہر آگرہ میں 2018 میں ایک نوزائیدہ بچہ اس وقت ہلاک ہو گیا تھا جب ایک بندر بچے کو ماں کے ہاتھوں سے چھین کر مکانوں کی چھتیں پھلانگتا ہوا بھاگ نکلا اور واپسی کی کوشش میں بچہ ہلاک ہو گیا۔
اسی طرح سن 2007 میں نئی دہلی کے میئر پر ایک بندر نے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے۔ حملے کے نتیجے میں وہ بالکونی سے گر کر ہلاک ہو گئے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اگلے ہفتے نئی دہلی میں گروپ 20 اجلاس کے موقع پر قریبی مقامات پر رکھے گئے لنگورو ں کے کٹ آؤٹس غیر ملکی سربراہان کو بندروں کی شرارتوں سے محفوظ رکھنے میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں ؟
اور یہ بھی کہ جب اجلاس کے قریب متعین ماہرین لنگوروں کی آوازیں نکالیں گے تو کیا وہ آوازیں مہمانوں تک تو نہیں پہنچ جائیں گی؟ آپ کیا کہتے ہیں کمنٹس میں ضرور لکھئے ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔)
فورم