“ کینیڈا کے جنگلات کی آگ کے دھویں سے امریکہ میں ہونے والی آلودگی اس ملک کی تاریخ میں فضائی آلودگی کا ایک انتہائی سخت واقعہ تھا لیکن دنیا کے دوسرے حصو ں میں لاکھوں لوگوں کے لئے یہ ایک خاصی عام صورتحال ہے”۔ یہ کہنا ہے اٹلانٹا, جارجیا میں قائم ایموری یونیورسٹی کےرولینس اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماحولیات کے شعبے کے پروفیسر جریمی سرنات کا ۔
“ہم امریکہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے” ۔ یہ کہنا ہے بھارت میں فضائی آلودگی اور آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے سے متعلق ماوں کے ایک نیٹ ورک ، ویرئیر مومز ، کی شریک بانی ، بھورین کندھاری کا جن کے ملک کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کی فضا مستقل طور پر بد ترین آلودگی کا شکار ہے ۔
دنیا بھر میں ہوا کے معیار کا جائزہ لینے والے مراکز کے ریکارڈز کی بنیاد پر ایک مجموعی اندازہ لگانے والی کمپنی آئی کیو ائیر کے مطابق، گزشتہ سال دنیا کے جن دس ملکوں میں ہوامیں موجود باریک ذرات کی سالانہ اوسط سطح سب سے زیادہ تھی ان میں سے نو کا تعلق ایشیا سے تھا ، اور ان میں چھ شہر بھارت کے تھے ۔
گزشتہ دنوں کینیڈا کے جنگلات کی آگ کی دبیز دھواں آلود ہوا نے نیو یارک شہر اور امریکہ کے شمال مشرقی علاقوں کو کئی روز تک اپنی لپیٹ میں رکھ کر لوگوں کو ایک پریشان کن صورتحال سے دوچار کیا لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں میں خطرناک حد تک آلودہ ہوا میں سانس لینا زندگی کی ایک ناگزیر حقیقت ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً پوری دنیا ایسی ہوا میں سانس لیتی ہے جس کا معیار کم از کم کبھی کبھار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کردہ معیار کی حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ خطرہ اس وقت مزید خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے جب وہ آلودہ ہوا عمومی طور پر ترقی پذیر یا نئے صنعتی ملکوں میں اس سے زیادہ دیر تک برقرار رہتی ہے جتنی دیر کینیڈا سے آنے والی ہوا امریکی فضاوں کو آلودہ کرتی رہی ۔ اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں ان ملکوں میں بیرونی ہوا کی آلودگی کے باعث 42 لاکھ اموات واقع ہوئیں ۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ہو ا کی آلودگی کا باعث بننے والے انتہائی باریک ذرات جنہیں کبھی کبھی پی ایم 2.5 کہا جاتا ہے ، سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچ سکتے ہیں اور آنکھ ، ناک، گلے ، پھیپڑوں اور کبھی کبھی دل تک کی کار کردگی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں ۔
امریکہ میں صرف چند روز کی فضائی آلودگی پر لوگوں کو کیوں الرٹ کر دیا گیا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں لوگوں کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لئے قوانین موجود ہیں جن پر سختی سے عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں 1970 کےصاف ہوا کے کلین ایئر ایکٹ کے تحت فضائی آلودگی کے بیشتر ذرائع کے لئے حدود مقرر کرنے سے ملک کے بیشتر دھند آلود شہروں کی ہوا صاف ہو گئی ہے۔س تاریخی ضابطے کے نفاذ کے نتیجے میں ہوا میں دھول، دھواں ، مرکری اور دوسر ے زہریلے مادوں کی کمی کا بھی بندو بست ہوا ہے ۔
لیکن بہت سے ترقی پذیر اور نئے صنعتی ملکوں میں ماحولیاتی قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر اکثر زیادہ سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ان ملکوں میں فضائی آلودگی میں اضافے کی دوسری وجوہا ت بھی ہیں ، جن میں کوئلے پر انحصار، گاڑیوں سے کاربن کے اخراجات کی کم تر معیار اور کھانا پکانے اور حرارت کے لئے معدنی ایندھن کو جلانا شامل ہیں۔
بد ترین فضائی آلودگی کا شکار شہر
امریکہ میں چند روز کی فضائی آلودگی سے امریکہ بھر کے لوگ پریشان ہو گئے اور ان کے لئے الرٹ جاری کر دئے گئے جب کہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بہت سے شہروں کے لوگوں کے لیے اس درجے کی آلودگی روزانہ کی بات ہے اور وہاں اس حوالے سے کوئی الرٹ جاری نہیں ہوتے۔
بھارت کا دار الحکومت نئی دہلی
دنیا بھر میں فضائی آلودگی کو ماپنے والے بیشتر اداروں کے مطابق اگرچہ جمعرات کو امریکہ بھر میں خطرناک دھند نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں خلل ڈالا لیکن نئی دہلی میں آلودگی کی سطح پھر بھی دنیا بھر میں دوسری بلند ترین سطح تھی۔
بھارت کا دار الحکومت نئی دہلی جس کی آبادی 20 ملین یا دو کروڑ ہے، عام طور پر ملک بھر میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی کا شکار شہر ہے۔ وہاں کی آلودہ فضاکے باعث وہاں کی بلڈنگز اور یادگار عمارات دھندلا جاتی ہیں ،خاص طور پر موسم خزاں میں جب قریبی ریاستوں میں نسبتاً کم دجہ حرارت کے دوران فصلوں کے کچرے کو جلانے سے شہر کی فضا کبھی کبھی ہفتوں تک مہلک دھ ویں کی لپیٹ میں رہتی ہے ۔
اس کے علاوہ د یوالی کے تہوار کے دوران گاڑیوں کے دھویں اور آتشبازی سے فضا کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔لوگ کھانسی ، سر درد ، سینے کی گھٹن کا شکار ہوتے ہیں ۔ پروازوں میں تاخیر اور شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوتی ہے ۔ حکومت کبھی کبھی رہائشیوں سے گھر سے کام کرنے یا کار پول کی ہدایت کرتی ہے ، کچھ اسکول آن لائن ہو جاتے ہیں اور جو خاندان استطاعت رکھتے ہیں وہ ہوا کو صاف کرنے والے آلات استعمال کرتے ہیں ۔
پاکستان کا شہر لاہور
پاکستان کا شہر لاہور جس کی آبادی ایک کروڑ ہے، اکثراوقات فضائی آلودگی کا شکار رہتا ہے۔ گزشتہ سال لاہور کی ہوا میں انتہائی باریک ذرات کی سطح دنیا کی اوسط بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی ۔ لیکن گزشتہ دنوں کینڈا کی جنگلات کی آگ سے نیو یارک میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب فضائی آلودگی کی سطح لاہور کی اوسط آلودگی سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔
لاہور کے ایک 31 سالہ تاجر سجاد حیدر نے بتایا کہ وہ روزانہ موٹر سائیکل پر کام پر آتے ہیں ۔ اور ہوا کی آلودگی سے بچنے کے لیے ایک ماسک اور چشمہ پہنتے ہیں لیکن پھر بھی وہ آنکھ کی انفیکشن ، سانس کی تکلیف اور سینے کی گھٹن میں مبتلا رہتے ہیں جن میں سردیوں کے دوران دھند بڑھنے سے مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔
سب صحارا کے افریقی ملک
سب صحارا کے بہت سے افریقی ملکوں میں ہوا کا معیار خاص طور پر ریت کےطوفان کے باعث باقاعدہ طور پر خراب رہتا ہے ۔ جمعرات کو موسمیاتی ادارے ایکیو ویدر نے شمال میں مصر سے لے کر ہزاروں میل مغرب میں سینیگال تک کے ملکوں کی ہوا کے معیار کو خطرناک درجے پر رکھا تھا۔ اور یہ وہی درجہ تھا جس پر اس ہفتے نیو یارک اور واشنگٹن ڈی سی کو رکھاگیا تھا۔
چین کا شہر ہوتان
چین کا شہر دنیا بھر میں آلودگی کے شکار دس بدترین شہروں میں پہلے نمبر پر ہے ۔ اس کا شہر بیجنگ ایک زمانے میں فضائی آلودگی سے بری طرح متاثر تھا لیکن انہوں نے اس شہر اور اس کےقریبی علاقوں سے بھاری صنعتوں کو دوسرے مقامات پر منتقل کر دیا ، ہوا میں بہت زیادہ آلودگی پھیلانے والی پرانی موٹر گاڑیوں کو سڑکوں سے ہٹا دیا گیا اور ان میں سے بہت سی گاڑیوں کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں کو دے دی گئی ۔ چین ابھی تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ کوئلہ پیدا اور استعمال کرنے والا ملک ہے لیکن سڑکوں پر اس کا تقریباً بالکل استعمال نہیں ہوتا۔
میکسیکو سٹی
میکسیکو سٹی 1990 کی دہائی تک دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے ایک آلودہ ترین شہر تھا لیکن جب حکومت نے سڑکوں پر موٹر گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنا شروع کیا تو وہاں آلودگی کی سطح کم ہونی شروع ہوئی لیکن ابھی تک 90 لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں شاز و نادر ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہے جب ہوا کی آلودگی کے درجے کو قابل قبول خیال کیا گیا ہو ۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کے مطابق میکسیکو شہر میں ہوا کی آلودگی کے باعث ہر سال تقریباً نو ہزار اموات واقع ہوتی ہیں ۔یہ آلودگی عام طور پر خشک موسم سرما اور موسم بہار کے ابتدائی مہینوں میں بد تر شکل اختیا ر کر لیتی ہے ، جب کاشتکار پودے اگانے کی تیاری کے لیے کھیتوں کو جلا دیتے ہیں۔
حکام نے 2020 سے ہوا کے معیار کے بارے میں پورے سال کی کوئی رپورٹ جاری نہیں کی ہے لیکن اس سال کو خاص طور پر آلودگی کے اعتبار سے برا نہیں خیال کیا گیا کیوں کہ پینڈیمک کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک گھٹ گیا تھا۔
انڈونیشیا کا دار الحکومت جکارتہ
انڈونیشیا کے دار الحکومت جکارتہ میں جو دنیا کا چوتھا سب سے گنجان آباد ملک ہے۔ اکثر اوقات صاف نیلا آسمان دیکھنا مشکل ہوتاہے ۔ شہر کے شمال میں ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں ، جوشہر کی دو مصروف بندر گاہوں کے درمیان واقع ہے۔ اس جہاں کوئلہ بحری جہازوں سے لایا جاتا ہے اور ذخیرہ کیا جاتا ہے ، رہائشیوں نے کوئلے کی دھول سے بچنے کےلئے ایک جالی استعمال کی لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
وہاں کے ایک 48 سالہ رہائشی سپریادی نے بتایا کہ “میں اور میرا خاندان اکثر کھجلی اور کھانسی میں مبتلا رہتا ہے ۔ اس لئے جب فلیٹ میں بہت زیادہ دھول داخل ہونے لگتی ہے تو ہمیں لازمی طور پر گھر میں بند ہونا پڑتا ہے ۔ کیوں کہ گھر سے باہر جاتے ہیں تو ہمارے گلے اور آنکھیں خراب اور جسم میں کھجلی ہونے لگتی ہے “۔
ان گھرانوں نے کمپنیوں اور حکومت سے ہوا کو صاف کرنے پر زور ڈالنے کے لئے بہت گفت و شنید کی ۔ لیکن انہیں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔
بھارت کے شہر نئی دہلی میں مقیم فضائی آلودگی اور آب وہوا کی تبدیلی سے نمٹنے سے متعلق ماوں کے نیٹ ورک ، ویرئیر مومز ، کی شریک بانی کندھاری کہتی ہیں کہ “ فضائی آلودگی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور اب وقت آگیا ہے کہ سب مل کر اس کا مقابلہ کریں”۔
کندھاری کی بیٹی کو خراب ہوا کے باعث صحت کو لاحق خطرات کے پیش نظر آوٹ ڈور اسپورٹس میں شرکت ختم کرنا پڑی ۔ وہ کہتی ہیں کہ اس شہر کی فضا مستقل طور پر آلودگی کی لپیٹ میں رہتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پالیسی ساز صرف اس کی انتہائی سخت شکل اختیار کرنے کے وقت کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اس صورتحال کو تبدیل ہونا چاہئے ۔ صاف ہوا تک رسائی کا معاملہ ہو تو ہمیں کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔
فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے امریکہ اور دنیا بھر کے ملکوں میں متعدد اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سخت قوانین اور ضابطے بنائے جاتے ہیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں کینیڈا کے جنگلات کی آگ سے امریکہ تک پہنچنے والی چند روز کی فضائی آلودگی کے دوران ان ملکوں کے حفاظتی اقدامات کو اس سلسلے میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔
تاہم ترقی پذیر اور نئے صنعتی ملک اس ضمن میں جب تک کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں بنا لیتے وہ کم از کم پینڈیمک کے دور ان فضائی آلودگی کم کرنے کے ایک نئے طریقے پر ضرور عمل کر سکتے ہیں اور وہ ہے دفتروں کا کام زیادہ نہیں تو کچھ دن گھروں سے کرنے کا طریقہ جس نے پینڈیمک کے دوران دنیا کے ہر ملک کی فضائی آلودگی کو کم کرنے میں ایک کردار ادا کیا تھا ۔ اسی طرح اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے طالبعلموں کے لئے کچھ دن آن لائن تعلیم بھی انہیں اپنے ملکوں کی آلودہ فضا کے مضر اثرات سے بچانے میں کسی حد تک کارگر ہو سکتی ہے۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)