ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں محصور افراد کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے جو کہ اقوام متحدہ کی طرف سے بتائے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ بات ہالینڈ میں قائم امدادی گروپ "پی اے ایکس" اور واشنگٹن میں قائم سیریا انسٹیٹیوٹ کی طرف سے منگل کو جاری کی گئی "نیو سیج واچ رپورٹ" میں بتائی گئی۔
ایک ماہ قبل ہی انٹرنیٹ پر شام کے محصور علاقوں میں موجود لوگوں کی تصاویر نے عالمی توجہ حاصل کی تھی۔
ان تصاویر میں دکھائے گئے مناظر مضایا نامی علاقے سے بھی لیے گئے تھے جو کہ اُس وقت محصور علاقوں کی بنائی گئی اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ گزشتہ ماہ ہی یہاں امدادی کارکنوں کی رسائی ممکن ہوئی جنہوں نے یہاں کی حالت زار بتاتے ہوئے کہا تھا کہ "فاقوں سے ڈھانچہ بن جانے والے والدین اپنے بچوں کو خواب آور گولیاں کھلانے پر مجبور ہیں۔"
سیج واچ رپورٹ کے مطابق شام کی تقریباً 46 آبادیوں کے دس لاکھ نوے ہزار محصور ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ان علاقوں کی تعداد 18 بتائی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر علاقے دمشق کے گردو نواح اور حمص میں واقع ہیں جنہیں شامی سکیورٹی فورسز نے محصور کر رکھا ہے۔ مشرقی شہر دیرالزور میں لگ بھگ دو لاکھ افراد داعش اور سرکاری فورسز کے محاصرے میں ہیں۔ رپورٹ میں دو شہروں کو مسلح حزب مخالف کے گروپوں کے حصار میں بتایا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ "(ان علاقوں میں) بجلی اور پانی عام طور پر بند رہتا ہے اگر کہیں خوراک، ایندھن اور طبی سہولت ہے بھی تو اس تک رسائی بہت محدود ہے۔" ان علاقوں سے غذائی قلت اور بیماریوں کے باعث اموات کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
یہ اعدادوشمار ان آبادیوں میں موجود مقامی ذرائع بشمول لوکل کونسلز، طبی امدادی کارکنوں اور سٹیزن جرنلسٹس کے ذریعے حاصل کیے گئے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے اپنے اندازوں کی تجدید کرتے ہوئے محصورین کی تعداد چار لاکھ 86 ہزار 700 بتائی تھی۔
سیج واچ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے محاصرین کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو پتا نہیں اور اسی بنا پر اس مسئلے کی طرح درکار توجہ حاصل نہیں ہو پا رہی۔
شام میں گزشتہ پانچ سال سے خانہ جنگی جاری ہے جہاں صدر بشار الاسد کو حزب مخالف کے مسلح گروپوں کا سامنا ہے۔ وہیں 2014ء سے شدت پسند گروپ داعش کے شام کے وسیع علاقے پر قبضہ کر کے یہاں خلافت کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس تنازع میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور ایک کروڑ سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔