متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اِس بات کا انکشاف ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فروغ نسیم ایڈووکیٹ نے کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق نظرثِانی کی درخواست تیار کر لی گئی ہے، جو بدھ کو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں دائر کی جائے گی۔
ساتھ ہی، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے پارٹی اراکین اور کارکنان کوعدلیہ مخالف احتجاجی مظاہرے کرنے اور نامناسب الفاظ کے استعمال سے روک دیا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نےالطاف حسین کوعدلیہ مخالف تقریر پر توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 جنوری 2013ء کو طلب کیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ،جبکہ کراچی و حیدر آباد سمیت سندھ کے متعدد شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا جو ہفتے سے منگل کی دوپہر تک جاری رہا۔
اُدھر پیر کو رات گئے ایم کیو ایم کے کارکنان میں اُس وقت شدیدتشویش کی لہر دوڑ گئی جب الطاف حسین نے ایک بیان میں کارکنان سے پارٹی قیادت چھوڑ دینے سے متعلق اُن سے رائے طلب کی۔
ان کے بیان کے فوری بعد پیر کو رات گئے کارکنان کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر پہنچ گئی۔ حیدر آباد ، نوابشاہ اور کئی اور شہروں میں بھی الطاف حسین کے حامی جمع ہو گئے اور الطاف حسین کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماوٴں نے خطاب بھی کیا، جِس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اب عدلیہ اور ایم کیو ایم آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کا موٴقف تھا کہ اُنہیں کراچی بدامنی کیس میں ججوں کے چند ریمارکس پر اعتراض تھا ، یہ بات الطاف حسین نے تقریر میں کہی لیکن اُنہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا گیا۔
ایم کیو ایم کا موٴقف تھا کہ کالا باغ ڈیم پر بھی مختلف جماعتوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی پھر اُنہیں توہین عدالت کا نوٹس کیوں نہیں دیا گیا ؟اِس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ سات جنوری کو ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ ، عہدیداران ، کارکنان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہونگے۔
آج پھر احتجاج
کراچی میں احتجاج کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا ۔ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کے زیر اہتمام الطاف حسین سے اظہار یکجہتی کیلئے پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیاجس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایسی صورتحا ل میں سب کے سامنے یہی سوال تھا کہ ایم کیو ایم احتجاج ہی جاری رکھے گی یا پھر قانونی جنگ بھی لڑے گی ؟
منگل کی رات تقریباً نو بجے الطاف حسین کاوہ بیان سامنے آیا جس میں اُنہوں نے عہدیداران اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ عدلیہ مخالف مظاہرے فوراً بند کر دیں اور عدلیہ کے خلاف نامناسب استعمال نہ کیے جائیں۔ ساتھ ہی، الطاف حسین نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ عدالتوں کا وقارمجروح ہو،اس کا تقدس پامال ہو ، وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی ذات کسی قسم کے تصادم کا باعث بنے۔لہذا، سات جنوری کو کارکنان قانونی و آئینی ماہرین کوعدالت میں پیش ہونے دیں اور خود نہ جائیں۔
ساتھ ہی، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے پارٹی اراکین اور کارکنان کوعدلیہ مخالف احتجاجی مظاہرے کرنے اور نامناسب الفاظ کے استعمال سے روک دیا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نےالطاف حسین کوعدلیہ مخالف تقریر پر توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 جنوری 2013ء کو طلب کیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ،جبکہ کراچی و حیدر آباد سمیت سندھ کے متعدد شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا جو ہفتے سے منگل کی دوپہر تک جاری رہا۔
اُدھر پیر کو رات گئے ایم کیو ایم کے کارکنان میں اُس وقت شدیدتشویش کی لہر دوڑ گئی جب الطاف حسین نے ایک بیان میں کارکنان سے پارٹی قیادت چھوڑ دینے سے متعلق اُن سے رائے طلب کی۔
ان کے بیان کے فوری بعد پیر کو رات گئے کارکنان کی بڑی تعداد ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر پہنچ گئی۔ حیدر آباد ، نوابشاہ اور کئی اور شہروں میں بھی الطاف حسین کے حامی جمع ہو گئے اور الطاف حسین کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنماوٴں نے خطاب بھی کیا، جِس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اب عدلیہ اور ایم کیو ایم آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کا موٴقف تھا کہ اُنہیں کراچی بدامنی کیس میں ججوں کے چند ریمارکس پر اعتراض تھا ، یہ بات الطاف حسین نے تقریر میں کہی لیکن اُنہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا گیا۔
ایم کیو ایم کا موٴقف تھا کہ کالا باغ ڈیم پر بھی مختلف جماعتوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی پھر اُنہیں توہین عدالت کا نوٹس کیوں نہیں دیا گیا ؟اِس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ سات جنوری کو ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ ، عہدیداران ، کارکنان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہونگے۔
آج پھر احتجاج
کراچی میں احتجاج کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا ۔ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کے زیر اہتمام الطاف حسین سے اظہار یکجہتی کیلئے پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیاجس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایسی صورتحا ل میں سب کے سامنے یہی سوال تھا کہ ایم کیو ایم احتجاج ہی جاری رکھے گی یا پھر قانونی جنگ بھی لڑے گی ؟
منگل کی رات تقریباً نو بجے الطاف حسین کاوہ بیان سامنے آیا جس میں اُنہوں نے عہدیداران اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ عدلیہ مخالف مظاہرے فوراً بند کر دیں اور عدلیہ کے خلاف نامناسب استعمال نہ کیے جائیں۔ ساتھ ہی، الطاف حسین نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ عدالتوں کا وقارمجروح ہو،اس کا تقدس پامال ہو ، وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی ذات کسی قسم کے تصادم کا باعث بنے۔لہذا، سات جنوری کو کارکنان قانونی و آئینی ماہرین کوعدالت میں پیش ہونے دیں اور خود نہ جائیں۔