نومنتخب قومی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور قائدِ ایوان کی نشست کے لیے ووٹنگ سے عین قبل متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن نے آئینی ترمیم کے لیے راہ ہموار کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے ضلعی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے آئینی ترمیم منظور کرانا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ ایوان میں ایم کیو ایم کی 22 نشستوں کے باوجود وہ اپنی شرائط پر حکومتی اتحاد سے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت کی جس یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اس میں مسلم لیگ ن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے خودمختار اور مالی طو پر بااختیار مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کی "روح، مقصد اور ضرورت" سے مکمل اتفاق کرتی ہے۔
اس بارے میں ایم کیو ایم کے آئینی ترمیمی بل پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے اور پارلیمان سے اس کی منظوری کے لیے مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔
اس یادداشت پر مسلم لیگ ن کی جانب سے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن نے دستخط کیے ہیں۔
انتخابات سے قبل ایم کیو ایم نے اپنے منشور میں آئینی ترمیم سے متعلق بل منظور کرانے کا اعلان کیا تھا۔
مجوزہ بل کے مطابق نیشنل فنانس کمیشن(این ایف سی) ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقوم وفاق سے براہ راست صوبوں کے بجائے مقامی بلدیاتی اداروں کو منتقل کی جائیں گے تاکہ ضلعی اور مقامی حکومتوں کو مالی خودمختاری مل سکے۔
ترمیمی بل منظور کرانا آسان ہوگا؟
تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک جانب جہاں ایوان میں حکومتی اتحاد کی وہ پوزیشن نہیں کہ وہ تن تنہا کوئی آئینی ترمیم منظور کراسکے وہیں خود اتحاد کے اندر بھی ایم کیو ایم کی پوزیشن اس وقت کافی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں 17 عام اور پانچ مخصوص نشستیں ملنے کے باوجود ایم کیو ایم حکومتی اتحاد میں کمزور پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان جس یادداشت پر اتفاقِ رائے ہوا ہے اس پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ اور کئی جماعتیں اگر اس بل پر اصولی طور پر اتفاق بھی کریں تب بھی ملک میں سیاست اس وقت اس قدر تقسیم کا شکار ہوچکی ہے کہ اس بل پر ایم کیو ایم کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مظہر عباس کے بقول، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ایم کیو ایم اس ضمن میں کیا اگلا قدم اٹھاتی ہے۔ اگر ایم کیو ایم اس کو منظور کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو بلا شبہہ یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی لیکن موجودہ صورتِ حال میں مشکل نظر آتا ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت پاکستان پپیلز پارٹی ان ترامیم کی حمایت کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس وقت مضبوط قدموں پر نہیں کھڑی کیوں کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار نمبر پورے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) بالکل نہیں چاہے گی کہ ایم کیو ایم اتحاد سے الگ رہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی بھی صدارتی الیکشن کے لیے ایم کیو ایم کا ووٹ حاصل کرنے کی متمنی ہوگی۔
ایک اور مبصر ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی اہمیت کو اس طرح تسلیم نہیں کیا ہے جیسے وہ ماضی میں کرتی رہی ہیں۔
ان کے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی عوامی مقبولیت میں واضح طور پر کمی آچکی ہے۔
توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کا مطالبہ بالکل درست ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے لیکن بدقسمتی سے پیپلز پارٹی اس ماننے کو تیار نظر نہیں آتی۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسے دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔
’ماضی کے معاہدے پر عمل ہوا‘
ادھر مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پر عمل درآمد کے لیے مدد ملی تو وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بن جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم آئندہ کابینہ میں وزارت برائے وزارت نہیں چاہتی۔ متحدہ نے پاکستان کے عوام اور حکمران جماعت کے درمیان معاہدہ کروا دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) ہم سے جو تعاون مانگے گی ہم دیں گے۔
خیال رہے کہ ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی مذاکرات ہوئے تھے۔ اس سے قبل اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت بننے پر ایم کیو ایم بھی اس اتحاد کا حصہ بنی تھی اور اس کے لیے ایک 19 نکاتی معاہدے پر دستخط بھی ہوئے تھے۔
گزشتہ معاہدے کے بارے میں خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کے کئی نکات پر بڑی حد تک عمل درآمد ہوا ہے جس کے نتیجے میں کراچی میں مردم شماری کے نتائج درست ہوئے، لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن ہوئی اور حیدر آباد میں یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو کابینہ میں بھی شمولیت کی دعوت دی جائے گی اور اس کے لیے بھی بات چیت کا عمل جاری ہے۔
بعض ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم مجموعی طور پر چار وزارتیں لینے کی خواہش مند ہے جن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہاؤسنگ، میری ٹائم افئیرز اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت شامل ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے اعتراضات سے بچنے کے لیے مسلم لیگ (ن) متحدہ کو ایک ہی وزارت دینے پر اکتفا کررہی ہے۔
فورم