’ سب سے بہتر حقوق تو اسلام نے عورت کو دئے ہیں۔ اگر یہ اسے نہیں ملے تو باہر نکلنا اس کا حق ہے۔ اگر مرد ان حقوق پر ڈنڈی مارتا ہے تو عورت کو آواز اٹھانی چاہئے۔ اس میں کو ئی شرم یا کوئی جرم نہیں ہے۔ ‘میر والہ گاؤں کے مولوی عبدالرزاق، جو مختاراں مائی کے تاریخی مقدمے میں ان کے گواہ بنے تھے۔ ‘
مارچ کو عالمی طور پر عورتوں کی تاریخ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے، پاکستان میں اس ماہ ایک تاریخ تو رقم کی، عورت مارچ کے ایک نعرے’ میرا جسم میری مرضی ‘ پر میڈیا ٹرائلز نے۔ جس میں کچھ ایسے نازیبا جملوں کا استعمال بھی ہوا جن کا ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بلامبالغہ وہ تاریخ کا حصہ رہیں گے۔
لیکن یہاں واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کے اسٹوڈیوز میں بھی اس سے ایک روز قبل اسی مارچ پر ایک گفتگو 21 ویں صدی میں پاکستانی عورت کی جدوجہد کے حوالے سے ہوئی تھی۔ کس کو مدعو کروں؟ یہ سو چتے ہوئے اس صدی کے آغاز میں تاریخ رقم کرتی ایک ایسی لڑکی مجھے نظر آئی جس نے اٹھارہ برس پہلے اپنی کہانی سناتے ہوئے روتے ہوئے کہا تھا۔ ’ان سب نے میرے ساتھ زیادتی کی۔ میں واسطے دیتی رہی، اللہ کے واسطے، قرآن کے واسطے، کوئی بھائی ہے جو اپنی بہن کی عزت بچائے۔۔۔‘ لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔
پھر اس نے لڑنے کی ٹھانی، رپورٹ لکھوانے اور عدالت میں جانے کی، لیکن گاؤں بھر میں شاید ہر ایک کی آنکھیں، کان اور دماغ بند ہو چکے تھے۔ کوئی اس کا گواہ نہ بنا۔ تب ایک مرد مومن سامنے آیا، گاؤں کی مسجد کے مفلس اور کم استطاعت مولوی عبد الرزاق، جو سفاک، شقی القلب اور انتہائی طاقتور پنچائت کے خلاف مقدمہ میں، مختاراں مائی کے ساتھ ہو نے والے ظلم کے شاہد بنے۔ اور اس کےبعد جو کچھ ہوا وہ تا ریخ کا حصہ ہے۔
راؤنڈ ٹیبل میں دیگر مہمانوں کے ساتھ ان دونوں سے بات کر تے ہو ئے، میں نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ نعروں کی وجہ سے متنازعہ بن جانے والی اس مارچ کے کیا آپ بھی خلاف ہیں؟ مولوی صاحب نے جو اب بھی اپنے اسی گاؤں میں رہتے ہیں کہا، ’ سب سے بہتر حقوق تو اسلام نے عورتوں کو دئے ہیں۔ اگر یہ اسے نہیں ملے تو باہر نکلنا عورت کا حق ہے۔ اگر مرد ان حقوق پر ڈنڈی مارتا ہے تو عورت کو آواز اٹھانی چاہئے۔ اپنا حق لینا چاہئے۔ اس میں کوئی شرم یا کوئی جرم نہیں ہے۔‘
مختاراں مائی نے کہا کہ’ مجھے مقدمہ واپس لینے کیلئے لاکھوں، کروڑوں روپے کی پیش کش کی گئی تھی، ہر طرح کی لالچ دی گئی تھی، ایسا ہی مولوی صاحب کے ساتھ بھی ہوا ہو گا۔ لیکن میں سپریم کو رٹ تک گئی۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ جیت میری ہی تھی۔‘
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، عابد ساقی نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ان نعروں سے ان کے جذبات بھی مجروح ہوئے ہیں؟ کہا کہ ’منٹو صاحب پر بھی، جو اتنے بڑے کہانی کار ہیں، فحاشی کے الزامات لگے تھے۔ لیکن انھوں نے کہا تھا کہ میں معاشرہ کو جیسا وہ ہے، ویسا ہی دکھا رہا ہوں۔ عورت یہ مارچ کر کے کسی سے کچھ چھین نہیں رہی۔ وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اسے ایک انسان کے طور پر ٹریٹ کیا جائے۔‘
اور مارچ کی ایک ایکٹیوسٹ، قرآت مرزا کو فہمیدہ ریاض کی ایک نظم یاد آئی۔
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے
کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے
پر تم جس لمحے میں زندہ ہو
یہ لمحہ تم سے زندہ ہے
یہ وقت نہیں پھر آۓ گا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہو گا دیکھا جاۓ گا‘
تو لگتا ہے بہت سے لوگ ’اپنی کرنی کر گذرے‘۔ دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ کس کو یاد رکھتی ہے، ’میڈیا ٹرائلز کو، میر والہ کے مولوی عبدالرزاق کو، پنچائت کے ٹولے کو یا مختاراں مائی کو۔