ہلاکت سے تقریباً پانچ گھنٹے قبل، ہفتے کو ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان امیر، ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے ایک نمائندے نے اُن کے پاسپورٹ کا مشاہدہ کیا ہے، جس میں روانگی اور آمد کا اندراج درج ہے۔
منصور افغان شہری تھے۔ جب وہ مقامی وقت کے مطابق تقریباً 10 بجے صبح تافتان کے سرحدی مقام سے پاکستان میں داخل ہوئے، اُن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ پاسپورٹ میں ولی محمد کا نام تحریر ہے۔ تاہم، تصویر اُنہی کی ہے۔
مزید یہ کہ پاسپورٹ کنٹرول پر لی گئی تصویر میں اُن کی ملک میں آمد ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تصویر چمن ریلوے کالونی میں دیہاتیوں کو دکھائی گئی، اس کوشش میں کہ کیا وہ تصویر میں دیے گئے شخص کو جانتے ہیں۔ چمن ریلوے کالونی کا پتہ پاکستانی شناختی دستاویزات میں دکھایا گیا ہے، جو منصور کے پاس تھے۔
وہ 24 اپریل کو اِسی مقام سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔
تافتان چوکی سامان کی ترسیل کا مصروف مقام ہے، جس کے ذریعے ایران میں اور ایران سے اشیا لائی اور لے جائی جاتی ہیں۔
منصور کوئٹہ جا رہے تھے، جو تافتان سے تقریباً 680 کلومیٹر دور واقع ہے۔ وہ دوپہر کے کھانے کے لیے کوچکی کے قصبے کے قریب رکے۔ کھانا کھانے کے بعد سڑک پر آگئے۔ وہ کار کی پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔ اُنھیں تقریباً 15 کلومیٹر دور احمد وال کے قریب ہلاک کیا گیا، جو اُن کی منزل مقصود سے تقریباً 170 کلومیٹر دور واقع ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کا نمائندہ جس نے اُن کا پاسپورٹ دیکھا ہے، بتایا ہے کہ اُس میں 2006ء سے 2013ء دوران روانگی اور آمد کی متعدد اسٹامپ لگی ہوئی ہیں، جن میں کراچی سے دبئی کا سفر شامل ہے۔