خطے میں امریکی پالیسی سےوابستہ امریکی عہدے داروں کے مطابق، ایڈ مرل مائیک ملن کا گذشتہ ہفتے کا بیان کہ افغانستان میں امریکہ مخالف باغی گروپ درحقیقت پاکستان کی خفیہ ایجنسی کا ’بغل بچہ‘ ہے، اِس معاملے پر پاکستان کی طرف سے شدو مد کے ساتھ بیان بازی اور امریکہ کی غلط فہمیوں پر مبنی بیانات کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔
یہ بات بدھ کو ’واشنگٹن پوسٹ ‘ میں چھپنے والی ایک خبر میں کہی گئی ہے، جسے کریک مِلر اور کارن ڈی ینگ کے بائی لائن سےشائع کیا گیا ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ عہدے دار، جو اپنی شناخت نہیں کرانا چاہتے، اُن کی درونِ خانہ نکتہ چینی جاری ہے، کیونکہ وہ کھلے عام ملن کو چیلنج نہیں کرنا چاہتے، جب کہ ملن کی طرف سے الزامات کی درستگی پر اُنھیں تشویش ہے، ایسے وقت جب اوباما انتظامیہ کے عہدے دار پاکستان کو قائل کرنے کی اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں کہ وہ افغان باغی گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کردے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایک مدت سے انتظامیہ اِس بات کی خواہاں رہی ہے کہ اِس سلسلے میں پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے۔ تاہم ، کھلم کھلا الزام لگانا امریکی تعلقات کے حق میں نہیں، ایسے ملک کے ساتھ جسے امریکی عہدے دار افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقے میں طویل مدتی استحکام جاری رکھنے کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔
سینیٹ کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران ملن کے بیان کو جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کے سربراہ کے طور پر پاکستانی فوج اور اُس کی خفیہ ایجنسی کی ملی بھگت اور افغانستان میں امریکہ فوجیوں کو ہدف بنانے کے مترادف سمجھا جارہا ہے۔