پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف جمعہ کو وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے کئی علاقوں میں چھوٹے بڑے مظاہرے ہوئے۔
مظاہرین نے لاہور اور کراچی میں نجی ٹیلی ویژن چینل ’آج‘ کے دفاتر پر حملے کے علاوہ حیدر آباد میں پریس کلب پریس کلب بھی گھیراؤ کیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے ’آج‘ ٹیلی ویژن چینل پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
کئی مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے اور ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے پر حکومت وقت پر تنقید بھی کی۔
وفاقی دارالحکومت کی ایک معروف ’آبپارہ مارکیٹ‘ کے قریب چوک میں چند سو افراد پر مشتمل احتجاجی ریلی میں شامل افراد نے پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر ممتاز قادری کے حق میں نعرے درج تھے۔
تاہم بعد میں مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔
اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، خاص طور پر اسلام آباد میں سرکاری اور سفارت خانوں کی عمارتوں پر مشتمل علاقے ’ریڈ زون‘ کو کنٹینر کھڑے کر کے سیل کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پیر کو اڈیالہ جیل میں ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی جس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کیے گئے جن میں سے بیشتر پرامن رہے۔
ممتاز قادری پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا اور اُس نے گورنر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں اس وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔
پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010 میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد اُس خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور توہین مذہب سے متعلق موجودہ قوانین میں ترمیم کے حق میں بیان دیا تھا۔
ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ اُس نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ اُنھوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی حمایت کی تھی۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔