رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسٰی کیس: 'کیا ججز کی جاسوسی کرنا تذلیل نہیں؟'


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر دائر درخواستوں کی سماعت میں فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔

منیر اے ملک نے جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔

پیر کو مقدمے کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا ریفرنس خارج ہونے سے جج پر لگے داغ دھل جائیں گے؟

منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ریفرنس کالعدم قرار دینے سے داغ دھل سکتے ہیں۔ افتخار چوہدری کیس میں بھی ریفرنس کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسٰی کے مقدمات میں بہت فرق ہے۔ افتخار چوہدری کو فوجی آمر نے عدالت سے باہر نکال دیا تھا اور افتخار چوہدری کو گھر میں قید کیا گیا تھا۔

منیر اے ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا جسٹس فائز عیسٰی کی تذلیل بھی بالوں سے پکڑنے پر ہی ہو گی؟ کیا ججز کی جاسوسی کرنا تذلیل نہیں ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل مینر اے ملک نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کیں۔

ان کے بقول پی ٹی آئی کی نظرِ ثانی کی درخواست ان کی ذہنی سوچ کی عکاس ہے۔

جسٹس فائز عیسٰی کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت 10 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
جسٹس فائز عیسٰی کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت 10 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

جسٹس عیسٰی کے وکیل نے کہا کہ ریفرنس کا علم صدر مملکت، وزیرِ اعظم، اٹارنی جنرل، وزیرِ قانون اور چیف جسٹس کے سیکریٹری کو تھا۔

منیر اے ملک کے مطابق اس ریفرنس کے حوالے سے چیف جسٹس کے سیکریٹری نے خبر لیک نہیں کی، اس کی ذمہ داری باقی چار افراد پر ہے۔

ان کے مطابق صدر مملکت نے صرف اس حد تک کہا ہے کہ خبر ان کے دفتر سے لیک نہیں ہوئی۔

جسٹس فائز عیسٰی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایک حکومتی رکن نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ عدلیہ نے کریز سے نکل کر شاٹ کھیلی اور اب وہ احتساب کے شکنجے میں ہے۔

ان کے بقول کریز سے باہر شاٹ کھیلنے کا مطلب فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا ریاست میں کردار واضح ہے۔ اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کرتا ہے۔ حکومت کی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے اپنے جواب الجواب میں کہا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ ذاتی تعریف اور سستی شہرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ الزامات سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں بد نیتی کا اظہار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز عیسٰی پر ریفرنس کو سیاسی رنگ دینے اور سستی شہرت کا الزام لگایا۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز عیسٰی کو نفسیاتی مسائل کا شکار بھی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے متعلق نادرا اور ایف بی آر کا خفیہ ریکارڈ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ذریعے حاصل کیا گیا۔

منیر اے ملک کے بقول ریاست نے یہ تمام مواد جاسوسی کے ذریعے حاصل کیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالت غیر قانونی طریقے سے جمع شواہد کی توثیق کر سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل انور منصور خان (فائل فوٹو)
اٹارنی جنرل انور منصور خان (فائل فوٹو)

منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے مطابق جمع کیے گئے شواہد کا جائزہ لے سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی۔

منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسٰی اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔

بعد ازاں جسٹس فائز عیسٰی نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔

جسٹس فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو حکومت کی بدنیتی قرار دیا ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں جس کے بعد اب اٹارنی جنرل اس کیس میں حکومتی مؤقف پیش کریں گے۔

XS
SM
MD
LG