چین میں حکام کی حراست میں موجود ایک اہم سیاست دان کی اہلیہ کے خلاف ایک برطانوی تاجر کے قتل کا مقدمہ آغاز کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مکمل ہوگیا۔
حکمران جماعت 'کمیونسٹ پارٹی' کے سابق رہنما بوژیلائی کی اہلیہ گو کیلائی کے خلاف ملک کے مشرقی شہر ہیفے میں مقدمے کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔
عدالتی اہلکاروں کے مطابق گو کیلائی نے استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف عائد کردہ برطانوی تاجر نیل ہے ووڈ کے قتل کے الزاما ت سے انکار نہیں کیا جس پر مقدمہ کی کاروائی مکمل قرار دیدی گئی۔
عدالت نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ چین کی حالیہ سیاسی تاریخ کے اس اہم ترین مقدمے کا فیصلہ کب سنایا جائے گا۔ جرم ثابت ہوجانے پر ملزمہ کو موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔
ہیفے شہرکی عدالتی ترجمان ٹانگ ییگان کے مطابق گو کیلائی پر ہے ووڈ کو اپنے خاندانی باورچی ژانگ زیائوجن کے ساتھ ساز باز کرکے زہر دینے کا الزام ہے۔ زیائوجن بھی مقدمے میں شریک ملزم ہے۔
عدالتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ملزمہ نے 13 نومبر 2011ء کی شب نیل ہے ووڈ سے اس ہوٹل کے کمرے میں ملاقات کی تھی جہاں مقتول ٹہرا ہوا تھا۔
ترجمان کے بقول شراب نوشی کے باعث ہے ووڈ کے مدہوش ہوجانے کے بعد ملزمہ نے مقتول کو وہ زہر دے دیا تھا جو اسے اس کے باورچی نے فراہم کیا تھا۔
عدالتی کاروائی کے خاتمے کے بعد ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ دورانِ سماعت گو کیلائی کے وکیلِ صفائی نے موقف اختیار کیا کہ ہے ووڈ کے قتل کی ذمہ داری خود مقتول پر بھی عائد ہوتی ہے۔
وکیلِ صفائی کا کہنا تھا کہ ملزمہ نے یہ انتہائی قدم اس خدشے کے تحت اٹھا یا تھا کہ مقتول ان کے درمیان موجود ایک مالی تنازع کے ردِ عمل میں اس کے بیٹے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
وکلائے صفائی نے اس مبینہ مالی تنازع کی تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔
گو کہ ملزمہ کے خلاف موجود شہادتوں کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا لیکن چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' نے اپنی ایک رپورٹ میں گو کیلائی کے خلاف مقدمے میں موجود شواہد کو "ناقابلِ تردید اور موثر" قرار دیا تھا۔
اس مقدمے نے اندرونِ و بیرونِ ملک خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ گو کیلائی کے خلاف سماعت کے آغازسے قبل یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ ملزمہ کو مناسب دفاع مہیا نہیں کیا جائے گا جب کہ عوام اور مبصرین کی اکثریت کو یہ بھی یقین تھا کہ عدالت میں گو کیلائی کے خلاف عائد الزامات ثابت ہوجائیں گے۔
مذکورہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں عوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جب چین کی حکمران جماعت رواں برس کے اختتام پر قیادت کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہے۔
کئی چینی باشندے سمجھتے ہیں کہ بیجنگ حکام اس مقدمے کو بوکیلائی کے شوہر اور ماضی کے کاماںب سیاست دان بو ژیلائی کا سیاسی کیریئر خراب کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بوژیلائی ماضی میں حکمران جماعت کے اہم رہنما رہے ہیں لیکن مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد انہیں ان کے عہدے سے معزول کرکے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
بوژیلائی گزشتہ کئی ماہ سے حکام کی تحویل میں ہیں جس کے دوران میں ان سے ان کی مبینہ بدعنوانی کی تفتیش کی جارہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے حکام کو جان بوجھ کر اپنی بیوی کے جرم سے لاعلم رکھا۔
حکمران جماعت 'کمیونسٹ پارٹی' کے سابق رہنما بوژیلائی کی اہلیہ گو کیلائی کے خلاف ملک کے مشرقی شہر ہیفے میں مقدمے کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔
عدالتی اہلکاروں کے مطابق گو کیلائی نے استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف عائد کردہ برطانوی تاجر نیل ہے ووڈ کے قتل کے الزاما ت سے انکار نہیں کیا جس پر مقدمہ کی کاروائی مکمل قرار دیدی گئی۔
عدالت نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ چین کی حالیہ سیاسی تاریخ کے اس اہم ترین مقدمے کا فیصلہ کب سنایا جائے گا۔ جرم ثابت ہوجانے پر ملزمہ کو موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔
ہیفے شہرکی عدالتی ترجمان ٹانگ ییگان کے مطابق گو کیلائی پر ہے ووڈ کو اپنے خاندانی باورچی ژانگ زیائوجن کے ساتھ ساز باز کرکے زہر دینے کا الزام ہے۔ زیائوجن بھی مقدمے میں شریک ملزم ہے۔
عدالتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ملزمہ نے 13 نومبر 2011ء کی شب نیل ہے ووڈ سے اس ہوٹل کے کمرے میں ملاقات کی تھی جہاں مقتول ٹہرا ہوا تھا۔
ترجمان کے بقول شراب نوشی کے باعث ہے ووڈ کے مدہوش ہوجانے کے بعد ملزمہ نے مقتول کو وہ زہر دے دیا تھا جو اسے اس کے باورچی نے فراہم کیا تھا۔
عدالتی کاروائی کے خاتمے کے بعد ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ دورانِ سماعت گو کیلائی کے وکیلِ صفائی نے موقف اختیار کیا کہ ہے ووڈ کے قتل کی ذمہ داری خود مقتول پر بھی عائد ہوتی ہے۔
وکیلِ صفائی کا کہنا تھا کہ ملزمہ نے یہ انتہائی قدم اس خدشے کے تحت اٹھا یا تھا کہ مقتول ان کے درمیان موجود ایک مالی تنازع کے ردِ عمل میں اس کے بیٹے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
وکلائے صفائی نے اس مبینہ مالی تنازع کی تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں۔
گو کہ ملزمہ کے خلاف موجود شہادتوں کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا لیکن چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' نے اپنی ایک رپورٹ میں گو کیلائی کے خلاف مقدمے میں موجود شواہد کو "ناقابلِ تردید اور موثر" قرار دیا تھا۔
اس مقدمے نے اندرونِ و بیرونِ ملک خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ گو کیلائی کے خلاف سماعت کے آغازسے قبل یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ ملزمہ کو مناسب دفاع مہیا نہیں کیا جائے گا جب کہ عوام اور مبصرین کی اکثریت کو یہ بھی یقین تھا کہ عدالت میں گو کیلائی کے خلاف عائد الزامات ثابت ہوجائیں گے۔
مذکورہ مقدمہ ایک ایسے وقت میں عوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جب چین کی حکمران جماعت رواں برس کے اختتام پر قیادت کی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہے۔
کئی چینی باشندے سمجھتے ہیں کہ بیجنگ حکام اس مقدمے کو بوکیلائی کے شوہر اور ماضی کے کاماںب سیاست دان بو ژیلائی کا سیاسی کیریئر خراب کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بوژیلائی ماضی میں حکمران جماعت کے اہم رہنما رہے ہیں لیکن مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد انہیں ان کے عہدے سے معزول کرکے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
بوژیلائی گزشتہ کئی ماہ سے حکام کی تحویل میں ہیں جس کے دوران میں ان سے ان کی مبینہ بدعنوانی کی تفتیش کی جارہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے حکام کو جان بوجھ کر اپنی بیوی کے جرم سے لاعلم رکھا۔