نیوز کارپوریشن نامی نشریاتی ادارے کے چیئرمین اور سرمایہ دار روپرٹ مرڈوک نے برطانوی پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دن انکی زندگی کا سب سے زیادہ شرمندگی والا دن ہے لیکن وہ اس اسکینڈل کے لیے ذاتی طور پر ذمہ دار نہیں۔
اسی سالہ رپرٹ مرڈوک اور ان کے صاحبزادے جیمز منگل کو برطانوی پارلیمان کے روبرو پیش ہوئے جہاں وہ اپنے اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' کے 'فون ہیکنگ اسکینڈل' میں ملوث ہونے سے متعلق برطانوی قانون سازوں کے سوالات کے جواب دیں رہے ہیں۔
برطانوی پارلیمان کے اس ہنگامی اجلاس میں شرکت اور 'فون اسکینڈل' کے سامنے آنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اپنا دورہ افریقہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
'نیوز آف دی ورلڈ' کے رپورٹروں پر مشہور شخصیات، سیاستدانوں، حریف صحافیوں حتیٰکہ قتل کے ملزمان کے موبائل فونوں تک غیر قانونی رسائی حاصل کرکے ہزاروں صوتی پیغامات سننے کا الزام ہے۔
جیمز مرڈوک نے 'فون ہیکنگ' کا نشانہ بننے والے افراد کو مبینہ طور پرمالی معاوضہ کی ادائیگی کی منظوری دی تھی جس کے بارے میں برطانوی اراکینِ پارلیمان ان سے آج کے سیشن میں سوالات کریں گے۔
اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 168 برس سے شائع ہونے والے اس اخبار کو روپرٹ مرڈوک کی جانب سے گزشتہ ہفتے بند کردیا گیا تھا۔
مذکورہ اسکینڈل کے باعث لندن کے دو معروف پولیس افسران کو بھی مستعفی ہونا پڑا ہے۔ اسکینڈل کی صحیح چھان بین نہ کرنے پر تنقید کے باعث پیر کے روز اسسٹنٹ پولیس کمشنر جان یِٹس کو اپنی نوکری چھوڑنا پڑی تھی جبکہ اس سے ایک روز قبل لندن پولیس کے سربراہ پال اسٹیونسن نے اپنے عہدے کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ برطانوی پولیس پر اخبار نویسوں سے رشوتیں لینے کا بھی الزام ہے۔
ربیکا بروکس اور اخبار کے ایک اور سابق مدیر اور وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کے سابق رابطہ کار اینڈی کولسن کو اسکینڈل کے حوالے سے تفتیش کے لیے پہلے ہی حراست میں لیا جاچکا ہے۔
قبل ازیں فون اسکینڈل کا سب سے پہلے انکشاف کرنے والے برطانوی صحافی سین ہورے پیر کو اپنی رہائش گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ برطانیہ کی 'پریس ایسوسی ایشن' نے پولیس کے حوالے سے کہا ہے کہ ہورے کی موت کو مشکوک قرار نہیں دیا جارہا۔
امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے ہورے کے حوالے سے کہا تھا کہ اینڈی کولسن کے دورِ ادارت میں'نیوز آف دی ورلڈ' میں فون ہیکنگ بہت عام تھی اور اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔
ادھرامریکہ میں فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے بھی مرڈوخ کے میڈیا گروپ کے خلاف تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔
ایف بی آئی کی تفتیش کا مرکز یہ خدشات ہیں کہ کہیں مرڈوخ میڈیا گروپ کے ملازمین کی جانب سے گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے متاثرین یا اُن کے اہل خانہ کے ٹیلی فونوں تک زبردستی رسائی تو حاصل نہیں کی گئی یا معلومات حاصل کرنے کے لئے پولیس کو رشوت تو نہیں دی گئی۔
مرڈوخ خاندان کی کمپنی کے امریکہ میں خبروں اور تفریح سے متعلق متعدد منافع بخش ادارے کام کر رہے ہیں جن میں امریکہ کا کاروباری خبریں دینے والا چوٹی کا اخبار 'وال سٹریٹ جنرل' اور ایک بڑا ٹیلی وژن 'فاکس نیوز چینل' شامل ہیں۔