رسائی کے لنکس

'وہ رات بڑی عجیب اور بہت لمبی تھی'


پاکستان فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف 1999 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد لگ بھگ 10 برس تک مسند اقتدار پر براجمان رہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف 1999 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد لگ بھگ 10 برس تک مسند اقتدار پر براجمان رہے۔ (فائل فوٹو)

اسلام آباد میں اترتی نومبر کی یہ ابتدائی شام کسی تبدیلی کی دستک سنا رہی تھی۔

2007 الیکشن کا سال تھا۔ بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آ چکی تھیں اور نواز شریف کی پاکستان واپسی کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ مسلم لیگ (ق) کی حکومت اپنی مدت مکمل کر چکی تھی۔

جاننے والے دبی سرگوشیوں میں کہہ رہے تھے کہ ملک کے طاقتور ترین شخص اور باوردی صدر پرویز مشرف کی گرفت اقتدار پر ڈھیلی پڑ رہی ہے۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتوں سے الگ ہو کر، چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں بنائی گئی مسلم لیگ ق کے بینر تلے اکٹھے ہونے والے سیاستدان، ایک ایک کر کے دوبارہ اپنی پارٹیوں میں واپس جا رہے تھے۔

مجھ سمیت اپنے کیرئیر کے پہلے الیکشن کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ بے حد پر جوش اور ولولے کا مرحلہ تھا۔

لال مسجد آپریشن کے بعد سے وہ تمام آوازیں جو صدر پرویز مشرف کی تائید کرتی تھیں، دبی آواز میں اختلاف رائے کرتی سنی جا سکتی تھیں۔

ایسے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس نے ایک تحریک کو جنم دیا اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے لیے حالات قابو سے باہر ہونے لگے۔

جنرل مشرف ہی کے دور میں کھلنے والے نجی نیوز چینل، آزاد صحافت کے علم اٹھائے، لائیو ٹیلی ویژن پر، ہر قومی معاملہ کھول کھول کر عوام کے سامنے رکھ رہے تھے۔ انسانی حقوق، حقیقی جمہوریت، آزادی اظہار رائے کی باتیں ہونے لگیں تھیں۔

تین نومبر کی شام سے ٹیلی ویثرن کی اسکرینیں ایوان اقتدار کی اندرونی کہانیاں بیان کررہی تھیں۔ قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پاکستان میں ایمرجنسی نافذ ہو نے کی باتیں ذرائع کے حوالے سے کی جا رہی تھیں ۔

ایمرجنسی کی اصطلاح، میری نسل کے نوجوانوں کے لیے نئی تھی، کیونکہ ماضی میں فوجی حکمران جمہوری حکومتوں کو برطرف کر کے مارشل لا لگاتے آئے ہیں ۔ کسی فوجی سربراہ نے اقتدار میں رہتے ہوئے مارشل لا نہیں لگایا ۔

ایک طالب علم صحافی کے طور پر، اپنے ایک سنیئر ساتھی سے پوچھا کہ ایمرجنسی میں ہوتا کیا ہے؟

انھوں نے جواب دیا کہ یہ بھی مارشل لا ہے، کیونکہ آئین معطل ہو گیا ہے۔

اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر، ایک مرتبہ پھر فوجی ٹرک آئے،اور اہم عمارتوں پر فوج تعینات کر دی گئی ۔

ٹی وی چینلز کے نیوز رومز میں ہلچل تھی ۔تمام رپورٹر مختلف جگہوں سے ملنے والی معلومات شیئر کر رہے تھے۔

خبریں آنے شروع ہوئیں کہ سپریم کورٹ ایمرجنسی پر نوٹس لے سکتی ہے۔ دفتر سے بھاگم بھاگ سپریم کورٹ پہنچی تو عمارت کے باہر بڑی تعداد میں فوجی تعینات تھے ۔۔۔کہا جا رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز سمیت دیگر جج صاحبان کو نظر بند کر دیا گیا ہے ۔

پھر نیوز چینلز کی نشریات آف ائیر ہو نے لگیں ۔

جنرل پرویز مشرف میڈیا کی آزادی اور نجی ٹیلی ویثرن چینلز کو اپنی کامیابی کے طور پر بیان کرتے تھے لیکن ان کے اپنے دور میں نیوز چینلز کی آواز بند کر دی گئی تھی۔

اب صرف پی ٹی وی خبریں نشر کر رہا تھا۔۔ رات گئے جرنل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کیا۔۔ ایمرجنسی لگانے کے فیصلے کو درست قرار دینے کے حق میں دلائل دیئے۔

انھوں نے کہا کہ، ماضی کے سات برسوں میں پاکستان نے بہت ترقی ہے لیکن اب بعض وجوہات کی بنا پر ملکی ترقی کو خطرہ لاحق ہے۔ جو کسی خودکشی سے کم نہیں ہے ۔۔۔۔۔ان کا کہنا تھا، وہ ملک کو بچانا چاہتے ہیں۔

رات کے ساڑھے دس بجے تھے ۔۔۔ پیپلز پارٹی کے سینٹر اعتزاز احسن نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس بلائی۔ پریس کانفرنس کی کوریج کرنے پہنچی، تو ان کے گھر کے اردگرد سادہ کپڑوں میں بڑی تعداد میں اہلکار موجود تھے۔۔۔ لیکن پولیس کی وردی میں کوئی اہلکار نہیں تھا۔

اعتزاز احسن، اس دن سیاہ ملیشیا کے شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ انہوں نے ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دیا۔ پریس کانفرنس ابھی جاری تھی کہ اسلام آباد پولیس کے آفیسر اندر آئے اور ان سے گرفتار ی دینے کے لیے کہا ۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے اعتزاز احسن پریس کانفرنس چھوڑ کر پولیس موبائل میں بیٹھ چکے تھے۔

وہ رات بڑی عجیب اور بہت لمبی تھی ۔۔۔۔ صبح اخبار میں ہیڈ لائن دیکھی۔۔

'Gen. Musharraf’s second coup'

یعنی جنرل مشرف کی دوسری بغاوت۔

پرائیوٹ میڈیا چینلزعوام کی آنکھ سے اوجھل کر دیئے گئے تھے، لیکن مجھ سمیت ٹیلی ویژن صحافت سے وابستہ تمام صحافی تندہی سے اپنے کام میں مصروف تھے۔ نیوز بلیٹن ہوتے تھے۔ لائیو رپورٹنگ بھی ہوتی تھی اور تقریبات کی کوریج کے لئے بھی جایا جاتا تھا ۔

ایک چیز مختلف تھی ، پاکستان میں معروف ٹاک شو اینکرز حامد میر، طلعت حسین، کاشف عباسی اپنے شوز اسٹوڈیو میں نہیں، اوپن ائیر میں کر رہے تھے ۔۔۔ کبھی کسی ٹی وی چینل کے دفتر کے باہر ، کبھی پریس کلب کے باہر۔

عوام، سیاسی جماعتوں کے کارکن ، خصوصا وکلاء کی بڑی تعداد سڑکوں پر کھڑےیہ لائیو شوز دیکھتی تھی۔

ہر شام، تین بجے صحافی سیاہ پٹیاں باندھ کر ’زندہ ہے صحافی زندہ ہے، کوڑے بھی کھا کر زندہ ہے‘ اور’تیز ہو، تیز ہو جدوجہد تیز ہو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے پریس کلب کے کیمپ آفس سے ایک نجی ٹی وی کے دفتر تک ریلی نکالتے تھے۔

دوسری طرف وکیل ججوں کی نظر بندی پر نالاں تھے، جنہیں ان کی سرکاری رہائش گاہوں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔

اسلام آباد میں ججز کالونی کے باہر خار دار تاریں لگا کر بڑی تعداد میں پولیس تعینات کر دی گئی تھی۔ وکیل احتجاج کرتے ہوئے ججز کالونی پہنچتے اور اندر داخل ہونے کی کوشش میں ،پولیس کبھی واٹر کینن اور آنسو گیس کے استعمال سے انھیں منتشر کرتی۔

اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت لوگ پاکستان کے حالات پر بے چینی اور افسردگی کا اظہار کرتے تھے ، لیکن ناامیدنہیں تھے ۔ پاکستان میں الیکشن ہونے والے تھے اور پیپلز پارٹی کے لیے حالات موزوں قرار دیئے جا رہے تھے۔

بے نظیربھٹو کبھی اچانک صحافیوں کی ریلی میں پہنچ کر اُن کی دلجوئی کرتیں، کبھی آزادی اظہار رائے کے حق میں آواز اٹھانے والوں کی حمایت کرتیں، تو کبھی وکیلوں کے درمیان پہنچ کر انھیں حوصلہ دے رہی ہوتیں ۔

تین نومبر کو لگنے والی یہ ایمرجنسی 42 دن کے بعد 15 دسمبر 2007 کو ہٹا لی گئی تھی۔

آج جب وقت، 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی سے 12 سال، 1 مہینہ،14 دن آگے کھڑاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی ایک عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ہم پیشہ سنیئر ساتھی کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔۔۔۔لیکن ایمرجنسی تو آج بھی ہے۔پہلے آئین معطل کیا گیا تھا، اب آئین معطلی کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔

  • 16x9 Image

    سارہ حسن

    سارہ حسن ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور ان دنوں وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے ان پٹ ایڈیٹر اور کنٹری کوآرڈینیٹر پاکستان کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG