اسلام آباد —
پاکستان کی سپریم کورٹ نے بدھ کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل سے متعلق مقدمے میں ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم جاری کیا۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی کو ہدایت دی کہ ان کے موکل کی ضمانت کی رہائی دس، دس لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کروانے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔
اس سے پہلے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے زیر حراست ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت اور ہائی کورٹ نے اکبر بگٹی قتل کیس میں ’’میرٹ کی بجائے صرف تکنیکی بنیادوں‘‘ پر ان کی درخواست ضمانت مسترد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت عدالت عظمیٰ کو اس پر نظرثانی کا حق حاصل ہے۔
ابراہیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے علاوہ اس مقدمے میں تمام دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔
بلوچستان کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل طاہر اقبال خٹک نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف مجرمانہ سازش کا الزام ہے اور ان کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بزرگ بلوچ سیاستدان کے گھر پر راکٹوں سے حملے بھی کیے گئے۔
تاہم عدالت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسا کوئی گواہ نہیں جس نے سابق فوجی سربراہ کو خود کسی کے ساتھ اکبر بگٹی کے قتل کی سازش کرتے ہوئے دیکھا ہو۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان آسیہ اسحاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ’’آج جو حکم عدالت عظمیٰ نے دیا وہ ذیلی عدالت کو دینا چاہیے تھا۔ جو کوئی تھوڑا بہت قانون جانتا ہے اسے بھی معلوم ہے کہ اگر کوئی قاتل آلہ قتل کے ساتھ عدالت جاتا ہے اور ضمانت پر رہائی مانگتا ہے تو اسے مل جاتی ہے۔ لیکن عدالتوں نے ایسا نا کیا بلکہ اسے التوا کا شکار رکھا۔‘‘
نواب اکبر بگٹی 2006ء میں بلوچستان کے ضلع کوہلو میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے بلوچ رہنماء کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
رواں سال مارچ میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی پر سابق صدر کو متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور اسلام آباد میں پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انہیں وہاں رکھا گیا۔
متعلقہ عدالتیں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش اور ججوں کی نظر بندی کے مقدمات میں پہلے ہی پرویز مشرف کی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کر چکی ہیں۔
ابراہیم ستی کے بقول سابق فوجی سربراہ اب نا صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی سفر کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کے ایک اور وکیل اس سے قبل عدالت عظمیٰ کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ سابق فوجی سربراہ دبئی میں اپنی علیل والدہ کی عیادت کے لیے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم آسیہ اسحاق نے کہا کہ پرویز مشرف ملک سے باہر جانے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ پارٹی کو ’’ری آرگنائز‘‘ کرتے ہوئے سیاست میں بھرپور حصہ لیں گے۔
نواز شریف حکومت اعلان کر چکی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے معاملے پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی کو ہدایت دی کہ ان کے موکل کی ضمانت کی رہائی دس، دس لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کروانے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔
اس سے پہلے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے زیر حراست ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت اور ہائی کورٹ نے اکبر بگٹی قتل کیس میں ’’میرٹ کی بجائے صرف تکنیکی بنیادوں‘‘ پر ان کی درخواست ضمانت مسترد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت عدالت عظمیٰ کو اس پر نظرثانی کا حق حاصل ہے۔
ابراہیم ستی نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے علاوہ اس مقدمے میں تمام دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔
بلوچستان کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل طاہر اقبال خٹک نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف مجرمانہ سازش کا الزام ہے اور ان کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ بزرگ بلوچ سیاستدان کے گھر پر راکٹوں سے حملے بھی کیے گئے۔
تاہم عدالت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسا کوئی گواہ نہیں جس نے سابق فوجی سربراہ کو خود کسی کے ساتھ اکبر بگٹی کے قتل کی سازش کرتے ہوئے دیکھا ہو۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان آسیہ اسحاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ’’آج جو حکم عدالت عظمیٰ نے دیا وہ ذیلی عدالت کو دینا چاہیے تھا۔ جو کوئی تھوڑا بہت قانون جانتا ہے اسے بھی معلوم ہے کہ اگر کوئی قاتل آلہ قتل کے ساتھ عدالت جاتا ہے اور ضمانت پر رہائی مانگتا ہے تو اسے مل جاتی ہے۔ لیکن عدالتوں نے ایسا نا کیا بلکہ اسے التوا کا شکار رکھا۔‘‘
نواب اکبر بگٹی 2006ء میں بلوچستان کے ضلع کوہلو میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے بلوچ رہنماء کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
رواں سال مارچ میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی پر سابق صدر کو متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور اسلام آباد میں پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انہیں وہاں رکھا گیا۔
متعلقہ عدالتیں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش اور ججوں کی نظر بندی کے مقدمات میں پہلے ہی پرویز مشرف کی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کر چکی ہیں۔
ابراہیم ستی کے بقول سابق فوجی سربراہ اب نا صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی سفر کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کے ایک اور وکیل اس سے قبل عدالت عظمیٰ کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ سابق فوجی سربراہ دبئی میں اپنی علیل والدہ کی عیادت کے لیے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم آسیہ اسحاق نے کہا کہ پرویز مشرف ملک سے باہر جانے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ پارٹی کو ’’ری آرگنائز‘‘ کرتے ہوئے سیاست میں بھرپور حصہ لیں گے۔
نواز شریف حکومت اعلان کر چکی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے معاملے پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔