قومی سلامتی کے سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی افشا کردہ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایف بی آئی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) پانچ معروف امریکی مسلمانوں کی اِی میلز پر نظر رکھا کرتی تھی۔
ایک دستاویز کی بنیاد پر یہ رپورٹ، صحافی گلین گرین والڈ اور مرتضیٰ حسین نے مرتب کی تھی۔
آن لائن انٹرنیٹ نیوز سائٹ ’دِی انٹرسیپٹ‘ میں اُنھوں نے بتایا کہ نگرانی کے اِس کام کی اجازت باقاعدہ ضابطوں کے تحت ایک خفیہ انٹیلی جنس عدالت نے دی تھی، جِس کا مقصد مشتبہ جاسوسوں اور دہشت گردوں کا پتا لگانا تھا۔
’دِی انٹرسیپٹ‘ کے مطابق، اِس رپورٹ میں سنوڈن کی افشا کی گئی این ایس اے کی ’اسپریڈ شیٹ‘ میں اُن افراد کی اِی میلز دی گئی ہیں، تاہم اُن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔
’دِی انٹرسیپٹ‘ نے کہا ہے کہ اِن اِی میلز کی بنیاد پر کم از کم پانچ افراد کی شناخت ہوگئی ہے، جو تمام کے تمام امریکی شہری ہیں۔ اُن کے نام فیصل گِل، عاصم غفور، ہوشنگ امیراحمدی، آغا سعید اور نہاد اَود ہیں۔
گرین والڈ اور حسین کی رپورٹ کے مطابق، اِس ’اسپریڈ شیٹ‘ میں 7485 اِی میل ایڈریسز دیے گئے ہیں، جِن کے لیے بتایا گیا ہے کہ 2002ء سے 2008ء کے دوران اُن پر نظر رکھی گئی۔
اِن میں سے متعدد اِی میلز ایسے غیرملکیوںٕ کی تھی جِن پر القاعدہ سے منسلک ہونے کا شبہ تھا، جِن میں انوار الاولکی شامل تھے۔ یہ یمنی نژاد امریکی مذہبی شخص 2011ء میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا۔
تاہم، صحافیوں کی طرف سے کی گئی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی ایک امریکی شہریوں کی بھی اِسی طرح کی چھان بین ہوئی، جن کے لیے جاسوسی اور دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی شہادت کی بنا پر ، خفیہ انٹیلی جنس عدالت کی طرف سے حکم نامہ جاری ہونا لازم ہوتاہے۔
تاہم، گرین والڈ اور حسین کی تین ماہ کی چھان بین کےبعد، جِس عمل میں ’فارین انٹیلی جنس سرویلنس ایکٹ ‘ کے تحت قانون کا نفاذکرنے والے درجن بھر سے زائد موجودہ اور سابق اہل کاروں کے انٹرویو شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایس اے کے نگرانی کے پروگرام میں حکومت کے پاس امریکی شہریوں کے خلاف معلومات حاصل کرنے کا کافی اختیار موجودہے۔
این ایس اے اور ایف بی آئی نے جِن پانچ امریکیوں کے اِی میل اکاؤنٹس کی نگرانی کی ، وہ اعلیٰ عوامی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور بظاہر مثالی زندگی کے مالک ہیں۔
’دِی انٹرسیپٹ‘ کی رپورٹ کے موجب، پانچوں ہی افردا نے کسی قسم کی دہشت گردی یا جاسوسی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ اِن میں سے کچھ حضرات نے امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کےاعلیٰ اداروں میں خدمات انجام دی ہیں۔
شہری حقوق کے گروپوں نے اِن انکشافات پر نکتہ چینی کی ہے۔
’سینٹر فور کونسٹی ٹیوشنل رائٹس‘ کے سربراہ نے اخبار ’دِی ہِل‘ کو بتایا کہ نشانہ بنانے کا یہ طرزعمل اُسی نوعیت کا عکاس ہے جِس میں ایف بی آئی شہری حقوق کے اعلیٰ رہنماؤں کی نگرانی کرتا آیا ہے، جِن میں پچھلے عشروں کے دوران مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور مالکم ایکس شامل تھے۔
وِنسینٹ وارنٹ نے ’دِی ہِل‘ کو بتایا کہ، حکومت ایک تنظیم کو اُس کی قانونی سیاسی سرگرمی کی بنا پر ہدف بناتی رہی ہے اور جس میں فلسطینیوں کے لیے پُر امن حمایت اور امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ مساوی سلوک کے معاملات کو مشتبہ سرگرمی سے خلط ملط کیا گیا ہے۔
’ویئرڈ‘ نامی آن لائن سائٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، خبر چھپنے کے فوری بعد،’مسلم ایڈووکیٹس‘ نامی ایک گروپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اِس رپورٹ سےامریکی مسلمانوں کےاُن خدشات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وفاقی حکومت نے امریکیوں کو ہدف بنایا، یہا ں تک کہ اُن لوگوں لو بھی جنھوں نے اپنے ملک کی فوج اور حکومت میں خدمات انجام دی ہیں، محض اُن کے عقیدے اور مذہبی ورثے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔
بدھ کی صبح کے ایک بیان میں، اوباما انتظامیہ نے اِس بات کی تردید کی ہے کہ اِن سرگرمیوں کی بنیاد سیاسی اور مذہبی ہے۔
اِس رپورٹ پر بیان دیتے ہوئے، امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ ابلاغ کے ذرائع کی صرف ’قانونی خارجہ انٹیلی جنس یا انسداد دہشت گردی کے مقاصد‘ کے لیے نگرانی ہوسکتی ہے۔
امریکی محکمہٴ انصاف اور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ادارے ایسےسیاسی، مذہبی یا سرگرم افراد کے خلاف اس بنا پر الیکٹرانک سرویلینس کرتے ہیں کہ وہ پبلک پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے، یا حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں، یا آئینی حقوق استعمال کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اِس طرح کی نگرانی کے لیے درکار کسی عدالتی حکم نامے میں ’واضح حقائق کی بنیاد پر ممکنہ سبب‘ کی نشاندہی ضروری ہے، کہ یہ شخص کسی غیر ملک کا ایجنٹ ، دہشت گرد، جاسوس، یا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو بیرونی ملک سے احکامات لیتا ہو۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کسی امریکی شخص کی محض اِس لیے نگرانی نہیں کی جاتی کہ وہ ’فرسٹ ایمنڈ منٹ ‘کے تحت سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، مثلاً عوامی ریلیاں نکالنا، انتخابی مہم کو منظم کرنا، تنقید پر مبنی مضامین تحریر کرنا یا اپنے ذاتی عقائد کا اظہار کرنا‘۔