رسائی کے لنکس

مصر: نئے انتخابات کا اعلان اخوان نے مسترد کردیا


دارالحکومت قاہرہ کے میدان 'رابعۃ العدویہ' میں جمع محمد مرسی کے ہزاروں حامی منگل کی صبح نمازِ فجر ادا کر رہے ہیں۔
دارالحکومت قاہرہ کے میدان 'رابعۃ العدویہ' میں جمع محمد مرسی کے ہزاروں حامی منگل کی صبح نمازِ فجر ادا کر رہے ہیں۔

اخوان کے رہنما نے مصر کے عبوری صدر عدلی منصور پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے "منتخب نمائندوں سے اقتدار چھیننے" کے بعد اب قانون سازی کے اختیارات بھی غصب کرلیے ہیں۔

مصر میں 'اخوان المسلمین' نے ملک کی عبوری ا نتظامیہ کی جانب سے آئندہ سال کے اوائل میں ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کرانے کے اعلان اور آئین میں ترمیم کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

اخوان کے سینئر رہنما اعصام العریان نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ان کی جماعت کا عبوری انتظامیہ کےمنصوبے سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ صدر مرسی کے بحالی کے مطالبے پر قائم ہے۔

بیان میں اخوان کے رہنما نے مصر کے عبوری صدر عدلی منصور پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے "منتخب نمائندوں سے اقتدار چھیننے" کے بعد اب قانون سازی کے اختیارات بھی غصب کرلیے ہیں۔

عبوری انتظامیہ کی جانب سے پیر کی شب جاری کیے جانے والے منصوبے کے بعد اخوان کے ملک گیر احتجاج میں شدت آگئی ہے اور منگل کو اخوان کے مزید ہزاروں کارکن دارالحکومت قاہرہ کے میدان 'رابعۃ العدویہ' پہنچے اور وہاں جاری احتجاج میں حصہ لیا۔

خیال رہے کہ اخوان کے ہزاروں کارکن اور حامی گزشتہ ایک ہفتے سے 'رابعۃ العدویہ' میں جمع ہیں اور فوج کی جانب سے برطرف کیے جانے والے صدر محمد مرسی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پیر کی شب عبوری صدر عدلی منصور کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک حکم نامے میں ملک کے موجودہ آئین کے جائزے کے لیے پینل تشکیل دینے اور اس کی تجویز کردہ ترامیم کی منظوری کے لیے آئندہ پانچ ماہ میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ریفرنڈم کے بعد آئندہ برس کے آغاز میں نئے پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں گے جس کے بعد ملک میں صدارتی انتخاب ہوگا۔

مصر کی عبوری انتظامیہ نے انتقالِ اقتدار کے منصوبے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب صدر مرسی کے حامیوں پر فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی 50 سے زائد ہلاکتوں کے بعد ملک کی صورتِ حال انتہائی کشیدہ ہے۔

مصر کے صدارتی محافظین کے مرکز کے باہر احتجاج کرنے والے صدر مرسی کے ہزاروں مظاہرین پر پیر کی صبح مصری فوج نے فائر کھول دیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 51 مظاہرین ہلاک ہوگئے تھے جب کہ چار سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اخوان کی قیادت نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے نہتے مظاہرین پر بغیر کسی وجہ کے فائرنگ کی جب کہ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ "دہشت گردوں" کے ایک گروپ کی جانب سے فوجی مرکز پر دھاوا بولنے کے بعد وہاں تعینات اہلکاروں کو اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی۔

اطلاعات ہیں کہ فوج نے صدر محمد مرسی کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کے بعد سے مذکورہ فوجی اڈے پر قید کر رکھا ہے۔

مصر کے عبوری صدر عدلی منصورنے پیر کو پیش آنے والے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی پینل تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔

عبوری صدر نے مظاہرین سے "برداشت کا مظاہرہ" کرنے اور فوجی تنصیبات سے دور رہنے کی بھی اپیل کی ہے۔

لیکن اخوان المسلمین نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مزید مظاہروں کی اپیل کرتے ہوئے فوج کی حمایت یافتہ عبوری انتظامیہ کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے تین روز تک جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد مصر کی فوج نے بدھ کو صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

فوج نے ملکی آئین کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور کو ملک کا عبوری صدر منتخب کیا تھا جنہوں نے بعد ازاں مصری پارلیمان کے ایوانِ بالا کو بھی تحلیل کردیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ سال آئینی عدالت نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد سے صرف ایوانِ بالا ہی فعال تھا۔

پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں 'اخوان المسلمین' اور اس کی حامی اسلام پسندوں جماعتوں کو فیصلہ کن برتری حاصل تھی۔
XS
SM
MD
LG