برمنگھم کے ایک سرکاری کالج نےطالبات کو کالج میں نقاپ پہننے سے روک دیا ہے کالج پرنسپل کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مذہبی پردے یا نقاپ پر پابندی عائد کی ہے۔
دوسری طرف کالج میں نقاپ پہننے پر پابندی کی خبر نے مسلمان طالبات میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
مقامی روزنامے برمنگھم میل کے مطابق میٹرو پولیٹن کالج برمنگھم نے طالبات، عملے کے ارکان اور مہمانوں سے کہا ہے کہ کالج میں چہرے کو ڈھانپنے کے لیے نقاب پہننے پر ممانعت کر دی گئی ہےتاکہ انہیں ہرجگہ باآسانی شناخت کیا جاسکے۔
لیکن نقاب پر اس متنازع پابندی لگنے کی وجہ سے طالبات خاصی پریشان نظر آرہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
کالج کا نقاب پر پابندی کا اعلان پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کی برقع سے متعلق پابندی پر کی جانے والی بحث کے چند روز بعد سامنےآیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن فلپ ہولو بون نے، جنہوں نے اپنے حلقے کی پردہ دار خواتین سے ملنے سے معذرت کر لی تھی، پارلیمنٹ کے ایک نجی سیشن میں کہا کہ، ’نقاب برطانیہ کی حقیقی معاشرتی زندگی کی تشریح کے منافی ہے۔‘
کالج پرنسپل اور چیف ایگزیکٹیو ڈیم کرسٹین بریڈیک نے کہا کہ، ’یہ پالیسی کافی عرصے سے نافذ العمل ہے جو طالب علموں کے تحفظ کی غرض سے بنائی گئی ہے تاکہ کیمپس میں طالبات کو آسانی سے شناخت کیا جاسکےجبکہ کالج میں ہوڈیز، کیپ اور ہیٹ پہننے پر پابندی پہلے سے موجود ہے۔‘
کالج میں نقاب پہننے پر ممانعت کی خبر کا انکشاف میٹرو پولیٹن کالج کی ایک ایسی طالبہ نے کیا جس نے نام نہ بتانے کی شرط پر اخبار کو بتایا کہ انرولمنٹ حاصل کرنے کے بعد جب گذشتہ ہفتے وہ اور ان کی سہیلی کالج پہنچی تو انھیں بتایا گیا کہ کہ کالج میں نقاپ پہننے پر پابندی ہے اگرچہ طالبات سیکیورٹی کے افراد کے سامنے نقاب ہٹانے پر راضی تھیں تاہم انھیں کالج میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور نہ ہی کوئی متبادل راستہ اپنانے کی ترغیب دی گئی۔
سترہ سالہ طالبہ کا کہنا تھا کہ نقاب پہننا ان کا ذاتی معاملہ ہے اور انھیں اس پالیسی سے شدید دھچکہ پہنچا ہے کیونکہ یہ پالیسی ایک ایسے کالج کی جانب سے سامنے آئی ہے جو برمنگھم جیسے ایک کثیر الثقافتی شہرمیں واقع ہے جہاں زیر ِتعلیم مسلمان طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتی ہے کہ اس کا نقاب اس کی تعلیم یا کسی سے رابطے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور آج سے قبل اسے کبھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں رہا ہے جبکہ وہ جلد ہی اپنے لیے کسی دوسرے کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہے۔
صدر ایسویشن آف برطانیہ عمر ال حمدون نے نقاپ پر پابندی کے حوالے سے کہا کہ، ’کالج میں زیر ِتعلیم طالبات کو پالیسی کا احترام کرنا چائیے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ معاشرے میں رہتے ہوئے دیگر معاملات سے متعلق قوانین کا احترام کیا جاتا ہے۔‘
ذرائع کے مطابق پالیسی سے متعلق سوشل میڈیا پر ایک زور دار بحث کا آغاز ہو چکا ہے جہاں کچھ لوگوں نے سیکیورٹی کی بنیاد پر کیے جانے والا فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے تو وہیں فیس بک کے ذریعے ایک مہم چلائی جا رہی ہے اور ہزاروں لوگوں کو اس فیصلے کے خلاف جمعے کے روز نکالی جانے والی ریلی میں شامل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
جمعرات کے روز برمنگھم کی ایک رکن پارلیمنٹ شبانہ محمود نے اس خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ، ’میٹرو پولیٹن کالج کا نقاپ پر پابندی کا حکم سن کرانھیں شدید دھچکا پہنچا ہے اور وہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہیں جبکہ اس معاملے پر انہوں نے کالج کے بااختیار افراد کے ساتھ جلد میٹنگ بلانے کا مطالبہ بھی کیا۔‘
برمنگھم کی ایک رکن پارلیمنٹ شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ دوسرے کالج بھی کہیں اسی پالیسی کی تقلید نہ کریں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ طالبات تعلیم اور ہنرمندی کے کورسز میں پڑھائی کرنے سے محروم ہو کر گھر میں قید ہو جائیں گی۔
بتایا گیا ہے کہ 2007ء میں ہائی پروفائل مقدمات کے نتیجے میں عدالت نے کلاس میں پڑھائی کرتے ہوئے نقاپ پہننے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا اور بعد میں حکومت کی جانب سے اسکولوں اور کالجوں کے لیے وضع کردہ قوانین میں ہیڈ ٹیچرز اور کالج پرنسپلز کو خصوصی اختیار سونپا گیا۔ جس کے تحت حفاطتی وجوہات اور تعلیمی امور میں رکاوٹ بننے پر چہرے کا پردہ یا نقاب پہننے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
دوسری طرف کالج میں نقاپ پہننے پر پابندی کی خبر نے مسلمان طالبات میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
مقامی روزنامے برمنگھم میل کے مطابق میٹرو پولیٹن کالج برمنگھم نے طالبات، عملے کے ارکان اور مہمانوں سے کہا ہے کہ کالج میں چہرے کو ڈھانپنے کے لیے نقاب پہننے پر ممانعت کر دی گئی ہےتاکہ انہیں ہرجگہ باآسانی شناخت کیا جاسکے۔
لیکن نقاب پر اس متنازع پابندی لگنے کی وجہ سے طالبات خاصی پریشان نظر آرہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
کالج کا نقاب پر پابندی کا اعلان پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کی برقع سے متعلق پابندی پر کی جانے والی بحث کے چند روز بعد سامنےآیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن فلپ ہولو بون نے، جنہوں نے اپنے حلقے کی پردہ دار خواتین سے ملنے سے معذرت کر لی تھی، پارلیمنٹ کے ایک نجی سیشن میں کہا کہ، ’نقاب برطانیہ کی حقیقی معاشرتی زندگی کی تشریح کے منافی ہے۔‘
کالج پرنسپل اور چیف ایگزیکٹیو ڈیم کرسٹین بریڈیک نے کہا کہ، ’یہ پالیسی کافی عرصے سے نافذ العمل ہے جو طالب علموں کے تحفظ کی غرض سے بنائی گئی ہے تاکہ کیمپس میں طالبات کو آسانی سے شناخت کیا جاسکےجبکہ کالج میں ہوڈیز، کیپ اور ہیٹ پہننے پر پابندی پہلے سے موجود ہے۔‘
کالج میں نقاب پہننے پر ممانعت کی خبر کا انکشاف میٹرو پولیٹن کالج کی ایک ایسی طالبہ نے کیا جس نے نام نہ بتانے کی شرط پر اخبار کو بتایا کہ انرولمنٹ حاصل کرنے کے بعد جب گذشتہ ہفتے وہ اور ان کی سہیلی کالج پہنچی تو انھیں بتایا گیا کہ کہ کالج میں نقاپ پہننے پر پابندی ہے اگرچہ طالبات سیکیورٹی کے افراد کے سامنے نقاب ہٹانے پر راضی تھیں تاہم انھیں کالج میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور نہ ہی کوئی متبادل راستہ اپنانے کی ترغیب دی گئی۔
سترہ سالہ طالبہ کا کہنا تھا کہ نقاب پہننا ان کا ذاتی معاملہ ہے اور انھیں اس پالیسی سے شدید دھچکہ پہنچا ہے کیونکہ یہ پالیسی ایک ایسے کالج کی جانب سے سامنے آئی ہے جو برمنگھم جیسے ایک کثیر الثقافتی شہرمیں واقع ہے جہاں زیر ِتعلیم مسلمان طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتی ہے کہ اس کا نقاب اس کی تعلیم یا کسی سے رابطے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور آج سے قبل اسے کبھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں رہا ہے جبکہ وہ جلد ہی اپنے لیے کسی دوسرے کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہے۔
صدر ایسویشن آف برطانیہ عمر ال حمدون نے نقاپ پر پابندی کے حوالے سے کہا کہ، ’کالج میں زیر ِتعلیم طالبات کو پالیسی کا احترام کرنا چائیے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ معاشرے میں رہتے ہوئے دیگر معاملات سے متعلق قوانین کا احترام کیا جاتا ہے۔‘
ذرائع کے مطابق پالیسی سے متعلق سوشل میڈیا پر ایک زور دار بحث کا آغاز ہو چکا ہے جہاں کچھ لوگوں نے سیکیورٹی کی بنیاد پر کیے جانے والا فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے تو وہیں فیس بک کے ذریعے ایک مہم چلائی جا رہی ہے اور ہزاروں لوگوں کو اس فیصلے کے خلاف جمعے کے روز نکالی جانے والی ریلی میں شامل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
جمعرات کے روز برمنگھم کی ایک رکن پارلیمنٹ شبانہ محمود نے اس خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ، ’میٹرو پولیٹن کالج کا نقاپ پر پابندی کا حکم سن کرانھیں شدید دھچکا پہنچا ہے اور وہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہیں جبکہ اس معاملے پر انہوں نے کالج کے بااختیار افراد کے ساتھ جلد میٹنگ بلانے کا مطالبہ بھی کیا۔‘
برمنگھم کی ایک رکن پارلیمنٹ شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ دوسرے کالج بھی کہیں اسی پالیسی کی تقلید نہ کریں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ طالبات تعلیم اور ہنرمندی کے کورسز میں پڑھائی کرنے سے محروم ہو کر گھر میں قید ہو جائیں گی۔
بتایا گیا ہے کہ 2007ء میں ہائی پروفائل مقدمات کے نتیجے میں عدالت نے کلاس میں پڑھائی کرتے ہوئے نقاپ پہننے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا اور بعد میں حکومت کی جانب سے اسکولوں اور کالجوں کے لیے وضع کردہ قوانین میں ہیڈ ٹیچرز اور کالج پرنسپلز کو خصوصی اختیار سونپا گیا۔ جس کے تحت حفاطتی وجوہات اور تعلیمی امور میں رکاوٹ بننے پر چہرے کا پردہ یا نقاب پہننے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔