برطانوی حکومت نے اساتذہ، ڈاکٹرز اور ائیر پورٹ کے عملے کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ممکنہ جبری شادیوں کے حوالے سے چوکنا رہیں۔
ایک سرکاری رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جبری شادیوں کے واقعات میں اس وقت زیادہ اضافہ نظر آتا ہے جب اسکولوں میں موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اسی دوران نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چھٹیوں میں گھومانے پھرانے کے بہانے برطانیہ سے باہر لے جایا جاتا ہے اور انھیں اصل مقصد سے بالکل لاعلم رکھا جاتا ہے۔ لہذا اساتذہ اور ڈاکٹرز کو اس معاملے میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جنھیں ممکنہ جبری شادی کا نشانہ بننے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مکمل رازداری کے ساتھ اپنے تعاون کا یقین دلانا ہوگا۔
گذشتہ برس برطانوی ہائی کمیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوری سے مئی کے دوران جبری شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات برطانوی نژاد پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ پیش آئے جو کل واقعات کا 46 فیصد تھے۔
دفتر ِخارجہ اور وزارت ِداخلہ کے تحت چلائے جانے والے جبری شادی کی روک تھام سے متعلق ادارے کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس جون اور اگست کے ماہ میں400 جبری شادیوں کے واقعات کی اطلاع دی گئی تھی۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال برطانیہ میں پانچ ہزار سے آٹھ ہزار کے لگ بھگ خواتین کو جبری شادی کرنا پڑتی ہے جن میں سے ایک تہائی لڑکیوں کی عمریں سولہ برس سے کم ہوتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان دنوں ممکنہ جبری شادی کے حوالے سے نوجوانوں کو آگاہ رکھنے کے لیے ایک مددگار فون لائن کی تشہیر کی جارہی ہے اور 'شادی : یہ آپ کا انتخاب ہے' کے نام سے ایک معلوماتی کارڈ تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں نوجوانوں کو رازدارانہ مشورے کی بابت سمجھایا گیا ہے۔
اس ضمن میں حکومتی وزیر برائے انسداد جرائم جریمی براؤن کا کہنا ہے کہ، ''جس وقت نوجوان اسکولوں کی چھٹیاں گزار رہے ہوتے ہیں اور انھیں اپنے میٹرک کے نتائج کا انتظار ہوتا ہے تو ایسے وقت میں جب وہ مستقبل کی نئی راہ پر قدم رکھنے جا رہے ہوتے ہیں انھیں کسی ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جس سے وہ شادی کرنا نہیں چاہتے ہیں۔"
انھوں نے مزید کہا کہ، ''یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسی لیے ہم اسے غیر قانونی بنانے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔"
گذشتہ برس حکومت کی جانب سے جبری شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سد باب کے لیے ایسے مقدمات کو فوجداری قوانین کے تحت دئیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے لیے ان دنوں برطانوی دارالعلوم میں قانون سازی کی جارہی ہے برطانیہ میں اب تک جبری شادیوں کے مقدمات کا فیصلہ دیوانی عدالتوں کے تحت سنایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اسکاٹ لینڈ میں گذشتہ برس جبری شادی کے خلاف قانون سازی مکمل کر لی گئی ہے جس کے تحت اس جرم میں والدین کے لیے دو سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔ اگر برطانیہ میں بھی نیا قانون منظور کر لیا جاتا ہے تو ایسے والدین جو اپنےنوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو جبراً شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں انھیں قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم جبری شادیوں کے خلاف مہم چلانے والوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ جبری شادیوں کے واقعات کو جرم کے زمرے میں ڈالنے سے ان معاملات کو رپورٹ کرنے کے واقعات میں کمی آسکتی ہے کیونکہ جبری شادی کا شکار بننے والے بچے اور بچیاں اپنے پیاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی ہمت نہیں کر سکیں گے۔
ایک سرکاری رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جبری شادیوں کے واقعات میں اس وقت زیادہ اضافہ نظر آتا ہے جب اسکولوں میں موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اسی دوران نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چھٹیوں میں گھومانے پھرانے کے بہانے برطانیہ سے باہر لے جایا جاتا ہے اور انھیں اصل مقصد سے بالکل لاعلم رکھا جاتا ہے۔ لہذا اساتذہ اور ڈاکٹرز کو اس معاملے میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جنھیں ممکنہ جبری شادی کا نشانہ بننے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مکمل رازداری کے ساتھ اپنے تعاون کا یقین دلانا ہوگا۔
گذشتہ برس برطانوی ہائی کمیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوری سے مئی کے دوران جبری شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات برطانوی نژاد پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ پیش آئے جو کل واقعات کا 46 فیصد تھے۔
دفتر ِخارجہ اور وزارت ِداخلہ کے تحت چلائے جانے والے جبری شادی کی روک تھام سے متعلق ادارے کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس جون اور اگست کے ماہ میں400 جبری شادیوں کے واقعات کی اطلاع دی گئی تھی۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال برطانیہ میں پانچ ہزار سے آٹھ ہزار کے لگ بھگ خواتین کو جبری شادی کرنا پڑتی ہے جن میں سے ایک تہائی لڑکیوں کی عمریں سولہ برس سے کم ہوتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان دنوں ممکنہ جبری شادی کے حوالے سے نوجوانوں کو آگاہ رکھنے کے لیے ایک مددگار فون لائن کی تشہیر کی جارہی ہے اور 'شادی : یہ آپ کا انتخاب ہے' کے نام سے ایک معلوماتی کارڈ تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں نوجوانوں کو رازدارانہ مشورے کی بابت سمجھایا گیا ہے۔
اس ضمن میں حکومتی وزیر برائے انسداد جرائم جریمی براؤن کا کہنا ہے کہ، ''جس وقت نوجوان اسکولوں کی چھٹیاں گزار رہے ہوتے ہیں اور انھیں اپنے میٹرک کے نتائج کا انتظار ہوتا ہے تو ایسے وقت میں جب وہ مستقبل کی نئی راہ پر قدم رکھنے جا رہے ہوتے ہیں انھیں کسی ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جس سے وہ شادی کرنا نہیں چاہتے ہیں۔"
انھوں نے مزید کہا کہ، ''یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسی لیے ہم اسے غیر قانونی بنانے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔"
گذشتہ برس حکومت کی جانب سے جبری شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سد باب کے لیے ایسے مقدمات کو فوجداری قوانین کے تحت دئیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے لیے ان دنوں برطانوی دارالعلوم میں قانون سازی کی جارہی ہے برطانیہ میں اب تک جبری شادیوں کے مقدمات کا فیصلہ دیوانی عدالتوں کے تحت سنایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اسکاٹ لینڈ میں گذشتہ برس جبری شادی کے خلاف قانون سازی مکمل کر لی گئی ہے جس کے تحت اس جرم میں والدین کے لیے دو سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔ اگر برطانیہ میں بھی نیا قانون منظور کر لیا جاتا ہے تو ایسے والدین جو اپنےنوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو جبراً شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں انھیں قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم جبری شادیوں کے خلاف مہم چلانے والوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ جبری شادیوں کے واقعات کو جرم کے زمرے میں ڈالنے سے ان معاملات کو رپورٹ کرنے کے واقعات میں کمی آسکتی ہے کیونکہ جبری شادی کا شکار بننے والے بچے اور بچیاں اپنے پیاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی ہمت نہیں کر سکیں گے۔