ایک نئی دستاویزی فلم میانمر کی خانہ جنگی میں زندہ بچ جانےوالی خواتین کی آواز دنیا تک پہنچا رہی ہے۔ یہ خواتین امن کے حصول کی امید میں جنگ کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنے کے لیے بات کر رہی ہیں۔
میانمر کی خانہ جنگی کے دوران خواتین نے ایک بھاری قیمت چکائی ہے۔
ویمن لیگ آف برما کی تیار کردہ ایک نئی دستاویزی فلم نے یہ انكشاف کیا ہے کہ خواتین اس خانہ جنگی میں کس بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ اور اگرچہ اسے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے، لیکن کئی اعتبار سے اصل نکتہ یہ ہی ہے۔
کیرنی نیشنل ویمن آرگنائزیشن کی جنرل سیکرٹری مائی کہتی ہیں کہ خانہ جنگی نے خواتین اور بچوں کو یرغمال کی حالت میں تبدیل کر دیا ۔ اس دستاویزی فلم میں زندہ بچ جانے والی خواتین نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی زندگیاں جنگ زدہ ماحول سے پاک ہو کر معمول پر آجائیں اور یہ کہ پائیدار امن کے حصول کے لیے ملک میں مسلح گروپس کے درمیان لڑائی ختم ہونی چاہیے۔
اس دستاویزی فلم کا عنوان ہے، خواہش۔ خانہ جنگی میں زندہ بچ جانے والی خواتین کی آواز۔
اس فلم میں مختلف ریاستوں کی سات خواتین کے انٹرویوز شامل ہیں جن میں وہ خواتین بھی ہیں جو تھائی لینڈ اور برمی سرحد کے ساتھ واقع پناہ گزین کیمپوں میں رہتی ہیں۔
ویمن لیگ آف برما کی جنرل سیکرٹری لواے پونگیل کہتی ہیں کہ دونوں جانب ایسی مائیں ہیں جنہوں نے اپنے بچے کھو دیے، ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اپنے شوہر کھو دیے۔ ان سب کے جذبات ہیں، مثال کے طور پر وہ جہاں کہیں بھی ہوں، مرکز میں ہوں یا دور افتادہ نسلی علاقوں میں، مرکزی علاقے میں رہنے والی فوجیوں کی بیویاں بھی نسلی علاقوں میں ہونے والے تنازعوں کی تلخی سے متاثر ہوئیں۔ خواتین کمزور ہوتی ہیں اور وہ جہاں کہیں بھی رہتی ہوں، متاثر ہوتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم تنازعے کے حل میں خواتین کے اہم کردار کو اجاگر کرنا چاہیں گے۔
اور یہ ہی وجہ ہے کہ ویمن لیگ آف برما، جو برما کے اندر موجود نسلی بنیاد پر قائم 11 تنظیموں سمیت 13 ایڈوکیسی گروپس پر مشتمل ہے، ایک فائر بندی کا مطالبہ کر رہی ہے اس امید کے ساتھ کہ ان دکھوں اور مصائب کا خاتمہ ہو سکے جواس دستاویزی فلم میں پیش کیے گئے ہیں۔