میانمار نے منگل کے روز معزول سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی سزا میں جزوی معافی کا اعلان کیا جس سے ان کی 33 سالہ قید کی سزا میں سے چھ سال کی کمی ہو جائے گی۔ حکمران ہنتا کی طرف سے یہ نرمی اس لیے کی گئی ہے تا کہ ان کے اقتدار کے خلاف عوام کی طرف سے خونی مزاحمت میں کچھ کمی ہو سکے۔
دوسال پہلے ، سوچی کے خلاف فوج نے بغاوت کر کے انہیں معزول کر دیا تھا۔ اس وقت سے ملک بد ترین تشدد کی لپیٹ میں ہے ۔اس دوران فوج نے سوچی کے خلاف بدعنوانی سے لے کر کووڈ۔19 کے قوانین کی خلاف ورزی تک کے 19 مجرمانہ مقدمات قائم کیے ہیں۔
اب ہنتا کے ترجمان زاؤ من تون نے ان میں سے پانچ مقدمات میں معافی کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس معافی سے ان کی سزا میں چھ سال کی قید میں کمی ہو جائے گی۔ سوچی کو اب بھی 14 مقدمات کا سامنا ہے۔ اور معافی کے باوجود، انہیں مکمل طور پر رہا نہیں کیا جا رہا اور وہ بدستور قید میں رہیں گی۔
انسانی حقوق کے گروپ ان کے خلاف اس قانونی جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مقدمات محض جھوٹ پر مبنی دھوکہ ہیں جو ایک مقبول جمہوری رہنما کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
نوبل انعام یافتہ لیڈر جو اب 78 سال کی ہو گئی ہیں، ان کی صحت کےبھی مسائل پیدا ہو گئے ہیں اورخرابئ صحت کی بنا ء پر حکمراں ہنتا نے انہیں گزشتہ ہفتے جیل سے ایک سرکاری عمارت میں منتقل کر دیا تھا۔
ہنتا کے ترجمان نے کہا کہ 2021 کی بغاوت میں معزول کیے جانے والے میانمار کے سابق صدر ون مائنٹ، کے بھی دو مقدمات میں معافی کے بعد ، ان کی سزا میں چار سال کی کمی کر دی گئی ہے۔
ظلم کا کھیل
سوچی کے لیے منگل کو اس رعایت کا اعلان اس عام معافی کا حصہ تھا جو مہاتما بودھ کی تقریب کے موقع پر 7000 سے زائد قیدیوں کو دی گئی ہے ، جن میں 125 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
اعلان میں کہا گیا کہ سزائے موت کا سامنا کرنے والے متعدد قیدیوں کی سزاؤں میں بھی تخفیف کر کے انہیں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
میانمار کے ایک آزاد تجزیہ کار ڈیوڈ میتھیسن نے کہا کہ جزوی معافی ،دنیا کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ شاید کسی قسم کی سیاسی تبدیلی آنے والی ہے۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔
میتھیسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ وہ سیاسی قیدی کے ساتھ صرف ایک ظالمانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان کے خلاف تمام الزامات مضحکہ خیز ہیں اور 78 سالہ معمّر عورت کو 33 سال کی سزا دینا اور اس میں چھ سال کی کمی کرنا محض ایک مذاق ہے اور یہ کوئی مہربانی نہیں ہے۔
ایک مقبول لیڈر
فروری 2021 میں بغاوت کی رات سوچی کو حراست میں لیا گیا تھا اور اس کے بعد سے انہیں صرف ایک تصویر میں دیکھا گیا جب وہ فوج کے زیر تعمیر دارالحکومت نیپیدا میں فوجی عدالت کے ایک خالی کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں۔
انہیں مختلف مقدمات کے سلسلے میں تقریباً روزانہ ہنتا عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔
جولائی میں، تھائی لینڈ کے وزیر خارجہ نے سوچی سے ملاقات کی، جو حراست میں لیے جانے کے بعد سے کسی غیر ملکی ایلچی سے ان کی پہلی معلوم ملاقات تھی، لیکن ان کی بات چیت کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں۔
وہ میانمارکی اب بھی ایک مقبول لیڈر ہیں، حالانکہ ملکی فوج کے جنرلوں کے ساتھ اقتدار میں شراکت اور مظلوم روہنگیا اقلیت کے لیے بات کرنے میں ناکامی کے باعث ان کی شخصیت داغدار ہوئی تھی۔
جب سے فوج نے بغاوت کر کے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا ہے ،جمہوریت پسندوں نے میانمار کی سیاست اور معیشت پر فوجی تسلط کو مستقل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
نتیجے کے طور پر ملک کا زیادہ تر حصہ مسلح تصادم کا شکار ہے، اوراحتجاجی مظاہروں کے دوران ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں، اور فوج کو اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر نا پڑ رہی ہے۔
ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق، بغاوت کے بعد سے اب تک 3,800 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ گروپ کا کہنا ہے کہ فوج کی طرف سے سوچی کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد سے اب تک 24000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 20,000 افراد اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
ہنگامی حالت میں توسیع
ملک میں افراتفری اور بدامنی پھیلنے کے باعث ہنتا نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ ہنگامی حالت میں چھ ماہ کی توسیع کر رہی ہے ، جس سے ان انتخابات میں تاخیر کا امکان ہے جن کا اگست میں کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)
فورم