ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک عینی شاہد، مقامی جمہوریت نواز گروپ اور غیر جانبدارمیڈیا کے حوالے سے بتایا ہےکہ منگل کے روز میانمار کی فوج کے فضائی حملوں میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئےہیں جن میں بہت سے بچے بھی شامل تھے۔ یہ لوگ فوجی حکومت کے مخالفین کے ایک دفتر کے افتتاح کی تقریب میں شریک تھے۔
فوج فروری 2021 میں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی حکومت کےخلاف وسیع پیمانے پر مسلح جدوجہد کا مقابلہ کرنے کے لیے فضائی حملوں کا استعمال کر رہی ہے۔
ایک عینی شاہد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ایک لڑاکا طیارے نے براہ راست لوگوں کے ہجوم پر اس وقت بم گرایا جب وہ صبح 8 بجے ساگانگ علاقے کے کنبالو ٹاؤن شپ میں پازیگی گاؤں کے باہر ملک کی اپوزیشن تحریک کے مقامی دفتر کے افتتاح کے لیے جمع تھے۔
ایک عنی شاہد نے کے مطابق، جس نے حکام کی طرف سے سزا کے خدشے کی وجہ سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، بتایا کہ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا اور اس مقام پر فائرنگ کی۔
ابتدائی رپورٹوں میں مرنے والوں کی تعداد 50 کے لگ بھگ بتائی گئی تھی، لیکن بعد میں غیر جانبدار میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ تعداد تقریباً 100 تک پہنچ سکتی ہے۔
نیو یار ک ٹائمز نے ٹیوٹر پر ایک پوسٹ میں کہاہے کہ امدادی کارکنوں کے مطابق، باغیوں کے قبضے والے علاقے میں میانمار کی فوجی حکومت نے اپنے فضائی حملے میں کم از کم سو افراد کو ہلاک کیا ہے جن میں تیس بچے ہیں۔پوسٹ کے مطابق یہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سب سے ہلاکت خیز حملہ ہے۔
یہ علاقہ ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے کے شمال میں تقریباً 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اے پی نے کہا ہے کہ واقعے کی تفصیلات کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ناممکن تھا کیونکہ فوجی حکومت کی طرف سے میڈیا رپورٹنگ پر پابندی عائد ہے۔ ریاست کے زیر کنٹرول میڈیا میں حملے کے بارے میں فوری طور پر کوئی اطلاع نہیں ملی۔
ماضی کے معاملات میں فوجی حکومت نے کہا تھا کہ وہ غیر متناسب طاقت کا استعمال نہیں کرتی ہے۔
میانمار کی نیشنل یونٹی گورنمنٹ (این یو جی)نے، جو بیشتر معزول سویلین رہنما آنگ سان سوچی کی پارٹی کے سابق قانون سازوں پر مشتمل ہے اس حملے کو "گھناؤنا " قرار دیتے ہوئےکہا، "ہم اس سانحے سے متاثرہ خاندانوں کےدرد میں شریک ہیں۔"
میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نولین ہائزر کے ترجمان نے کہا کہ ایجنسیاں ان رپورٹس کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اے ایف پی نے تبصرہ کے لیےفوجی جنتا کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
فوج کو، جواپنے مخالف جنگجوؤں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگاتی ہے، دیہاتوں کو مسمار کرنے، بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور عام شہریوں پر فضائی حملوں کے لیے بین الاقوامی مذمت کا سامنا ہے۔
مارچ میں شان ریاست میں ایک خانقاہ میں پناہ لینے والے 30 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
باغیوں نے بتایا کہ پچھلے سال، شمالی کاچین ریاست میں کاچن انڈیپنڈنس آرمی کے ایک کنسرٹ پر فوجی فضائی حملے میں تقریباً 50 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
گزشتہ ماہ ایک فوجی پریڈ میں جنتا رہنما من آنگ ہلینگ نے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ فوج نے گزشتہ ماہ ہنگامی حالت میں چھ ماہ کی توسیع کا اعلان کیا تھا اور انتخابات ملتوی کر دیے تھے جو اس نے اگست تک کرانے کا وعدہ کیا تھا ۔
ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق بغاوت کے بعد سے اب تک 3,200 سے زیادہ شہری ہلاک اور 21,300 سے زیادہ گرفتار ہو چکے ہیں
(یہ رپورٹ اے پی، وی او اے اور اے ایف پی کیاطلاعات پر مشتمل ہے)