پاکستان میں قومی اسمبلی نے حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل دو تہائی اکثریت سے اور الیکشن ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے الیکشن ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل 2017ء پیش کیا۔
بل کے تحت قادیانی، احمدی یا لاہوری گروپ کی آئین میں درج حیثیت برقرار رہے گی۔
انتخابی ایکٹ میں ختم نبوت کے حلف نامے انگریزی اور اردو میں شامل کیے جائیں گے۔ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اس بل کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
ختم نبوت حلف نامے سے متعلق وزیر قانون زاہد حامد نے وضاحت بھی پیش کی، ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں اب اس بات پر متفق ہیں کہ اس شق کو اصل صورت میں بحال کردیا جائے جب کہ سیون سی اور سیون بی کے الفاظ وہی ہیں جو پہلے تھے، دونوں حلف نامے انتخابی ایکٹ میں شامل کردیئے گئے ہیں۔
زاہد حامد نے کہا ہےکہ ’’میں عاشق رسول ہوں اور 2 حج اور کئی عمرے کرچکا ہوں۔ ختم نبوت کے حوالے سے شقوں میں تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ زاہد حامد کا کہنا تھا کہ 2002ء کے انتخابات سے قبل حکومت نے الیکشن آرڈر نافذ کیا۔
زاہد حامد کے بیان پر احسن اقبال نے کہا کہ ’’کسی بھی شخص کا ایمان اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہوتا ہے۔ کیا ہم گلی گلی جا کر بتائیں کہ ہم مسلمان ہیں‘‘۔
اس پر شیخ رشید احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال کو کچھ بھی معلوم نہیں اور وہ اٹھ کر باتیں کرنا شروع ہوگئے۔ زاہد حامد نے یہ بیان اپنی صوابدید پر دیا، انہیں کسی نے نہیں کہا کہ وہ بیان دیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’’اسپیکر صاحب میں آپ کی رولنگ چاہوں گا، ایک وزیر کچھ کہہ رہا ہے جب کہ دوسرا کچھ، اگر کوئی احمدی یا مرزائی ہے تو اسے بتانا ہوگا کہ وہ کون ہے جب کہ الیکشن ایکٹ کی شق سیون بی اور سیون سی بحال ہونے کے بعد قادیانی، احمدی یا لاہوری گروپ غیرمسلم مانے جائیں گے‘‘۔
گذشتہ روز پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں ختم نبوت سے متعلق ’کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر 2002‘ کی شق 7 بی اور 7 سی کو بھی اصل شکل میں بحال کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں، جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوگئی ہیں۔
مذکورہ شقوں کے مطابق، انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔
اگرچہ حکومت نے اسے کتابت کی غلطی قرار دیا تھا۔ لیکن اس شقوں کے خارج ہونے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا، جس کے باعث راولپنڈی اسلام آباد میں گذشتہ 10 روز سے نظام زندگی مفلوج ہوکررہ گیا ہے،
حلقہ بندیوں سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل
وزیر قانون زاہد حامد نے حلقہ بندیوں سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا۔ اپوزیشن جماعتوں سمیت قومی اسمبلی کے 242 اراکین کی جانب سے بل کی حمایت کی گئی، جبکہ جمشید دستی نے بل کی مخالفت کی۔ آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے 228 ووٹ درکار تھے۔
اس موقع پر جمشید دستی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں مردم شماری پر اعتراضات ہیں۔ ہم عوام کے مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہیں۔ میں اس ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کروں گا۔‘‘
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ الیکشن میں تاخیر ہو، لیکن وسیع تر مفاد میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیم کی ضرورت ہے‘‘۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے سندھ میں دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سندھ کے شہری علاقوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اگر مردم شماری میں ہی مسائل ہوئے تو انتخابات کیسے شفاف ہونگے‘‘۔
یاد رہے کہ وزیر قانون زاہد حامد نے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے اتفاق رائے کے بعد 2 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق ترمیمی بل پیش کیا تھا، جس پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا، جس کے نتیجے میں بل کو مزید مشاورت کے لیے واپس کردیا گیا تھا۔