پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) بالخصوص اس کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ان دنوں تنقید کی زد میں ہیں اور اس تنقید کی ابتدا ’نیب‘ کی طرف سے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف منی لانڈنگ سے متعلق ایک ’جعلی خبر‘ پر تحقیقات کا حکم دینا بنا ہے۔
اس معاملے پر وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے بدھ کو قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایوان ایک خصوصی کمیٹی بنا کر نیب کے چیئرمین کو طلب کرے اور اُن سے وضاحت مانگے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
اس کے جواب میں بدھ کو نیب کی طرف سے ایک وضاحت جاری کی گئی ہے جس کے بعد قومی احتساب بیورو پر تنقید میں مزید تیزی آگئی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ جو وضاحت پیش کی گئی اس سے ادارے کی مزید "جگ ہنسائی" ہوئی ہے۔
نیب کی نئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ نوٹس ایک اردو روزنامے 'اوصاف' میں یکم فروری 2018 کو شائع ہونے والے ایک کالم پر لیا گیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق "سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، سابق وزیرِ خزانہ محمد اسحاق ڈار، سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف وتھرا، سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سعید احمد کے ذریعے 16-2015 میں حکومتِ پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ سے چار ارب 90 کروڑ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ ان کے خاص آدمی سعید احمد نے یہ رقم دبئی بجھوائی اور دبئی سے یہ رقم بھارتی حکومت کے سرکاری خزانے میں تبادلہ کی گئی۔"
پریس ریلیز میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے لیکن عالمی بینک پہلے ہی اس خبر کو غلط قرار دے چکا ہے۔
قومی احتساب بیورو کے وضاحتی بیان کے مطابق مبینہ میڈیا رپورٹ اور مذکورہ انکشافات کی بنیاد پر مذکورہ شکایت کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا گیا "کیوں کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات نیب کے دائرۂ اختیار میں قانون کے مطابق شامل ہیں۔ نیب مبینہ رپورٹ کی جانچ پڑتال مروجہ قانون کے مطابق کر رہا ہے۔"
وضاحت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "نیب اس تاثر کو مکمل طور پر رد کرتا ہے کہ نیب کا مقصد کسی دل آزاری اور انتقامی کارروائی کرنا مقصود تھی۔"
لیکن نیب نے اپنے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ فروری میں شائع ہونے والی رپورٹ پر اتنی دیر سے کیوں نوٹس لیا گیا؟
واضح رہے کہ نیب کی طرف سے بدعنوانی سے متعلق کی جانے والی کارروائیوں اور اس ادارے کے چیئرمین کے بعض بیانات پر حالیہ مہینوں میں تنقید کی جاتی رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف ان دنوں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نیب کی طرف سے دائر ریفرنسوں کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ بھی آئے روز یہ کہتے رہتے ہیں کہ اُن کے خلاف تاحال کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔
تاحال یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی تجویز پر قومی اسمبلی کی کوئی خصوصی کمیٹی تشکیل دے کر چیئرمین نیب کو بلایا جائے گا یا نہیں۔
پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے وزیرِ اعظم کی تجویز پر اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا تھا کہ وہ اپنی جماعت کی قیادت سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔
لیکن حزبِ مخالف کی ایک اور بڑی جماعت تحریکِ انصاف کے اسد عمر نے ایوان میں مجوزہ کمیٹی اور چیئرمین نیب سے وضاحت کی طلبی کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی جماعت اس کی مخالفت کرے گی۔