اسٹینڈ اپ کامیڈین اور ڈینٹسٹ، نطالیا گل جیلانی نے جمعے کے روز وائس آف امریکہ کی نخبت ملک کے ساتھ فیس بک لائیو پر بات کی جس میں ان کی سندھیوں سے متعلق ویڈیو، جس پر حالیہ دنوں میں وہ ایک تنازع کی زد میں ہیں، پر بات ہوئی اور ساتھ ہی پاکستان میں سٹینڈ اپ کامیڈی کے بڑھتے رجحان پر گفتگو ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ سندھیوں سے متعلق یہ ویڈیو وہ اس سے پہلے بہت سے شوز میں پیش کر چکی تھیں اور انہیں اس سے پہلے کبھی ایسا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
نطالیا کا کہنا تھا کہ ان کی ویڈیو پر آنے والا ردعمل ان کے لئے بھی نیا اور حیران کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ابتدا میں ہمارے ناظرین کی تعداد دو چار سو ہی تھی۔ اب ’سرکس‘ نام کے ایک ادارے نے ہم سب کو پلیٹ فارم دیا ہے اور وہاں جب ہماری ویڈیوز پوسٹ ہوتی ہیں تو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ تو جو ردعمل ہے، اس کا ہمیں اس سے پہلے اندازہ بھی نہیں تھا۔‘‘
ویڈیو پر ہونے والے تنازع پر بات کرتے ہوئے نطالیا گل نے کہا کہ ’’لوگوں کو لگا کہ میں نے سندھی ثقافت اور ورثے کی توہین کی ہے۔ میں نے صرف اپنے تجربات کی بات کی تھی۔ غلطی یہ ہوئی کہ میں نے یہ بولنے کی بجائے کہ میں ایسے کرتی ہوں، میں نے ہم سندھی ایسا کرتے ہیں بول دیا۔ جس کی وجہ سے لوگ ناراض ہو گئے۔ ورنہ یہ ایک بہت ہی ہلکی پھلکی کامیڈی تھی۔‘‘
نطالیا نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک پوری قوم کی توہین محض ایک ویڈیو کی بنیاد پر ہو جائے۔
انہوں نے اس تنازع کے نتیجے میں آن لائن ہراسمنٹ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجھے اور میرے خاندان کو میرے تحفظ کی پریشانی ہے، مجھے کہا گیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلو۔ مجھے فیس بک بند کر دینا پڑا ہے، کیوںکہ مجھے بہت زیادہ دھمکیوں اور گالیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کسی کو اگر ان کے کام سے مسئلہ ہے تو وہ اس پر بات کرے مگر سوشل میڈیا پر ان ہر ذاتی حملے اور عجیب سرخیوں کے ساتھ ان کی تصاویر پوسٹ کی جا رہی تھیں۔ جس سے ان کو اور ان کے خاندان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے انہیں اپنی ویڈیو ڈیلیٹ کرنی پڑی اور اپنا فیس بک کا اکاؤنٹ بھی بند کرنا پڑا، نیز یہ کہ انہیں معافی مانگنی پڑی۔
نطالیا کا کہنا تھا کہ ان کی جگہ کوئی مرد ہوتا تو اسے اتنی تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
علی گل پیر کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب علی گل پیر نے ’’وڈیرے کا بیٹا‘‘ گانا ریلیز کیا تو انہیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کو ایسی گھمبیر صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس سے وہ گزر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے معاشرے میں اگر کوئی عورت بولنے والی ہو، آواز اٹھانے والی ہو تو اسے ایسے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا خدیجہ صدیقی کو سامنا کرنا پڑا۔‘‘
مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی کچھ دیر کے لئے وقفہ لیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کیوںکہ میں ابھی عوام میں نہیں جا سکتی، اور ہمارا تو کام ہی یہی ہے۔ ابھی تو میں یہ بھی کسی کو نہیں بتا سکتی کہ میں کہاں رہ رہی ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جہاں فیس بک پر انہیں شدید ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا وہیں ٹوئیٹر اور انسٹاگرام پر انہیں بہت سے لوگوں نے ہمدردی کے پیغام بھی بھیجے۔
پاکستان میں سٹینڈ اپ کامیڈی کے منظرنامے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی جو ایک نئی لہر اٹھ رہی ہے اس کے پیچھے ہندوستانی میڈیا اور ہندوستان میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کے مشہور ہونے کا ہاتھ ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان مین بھی مزاح کے اس نئے فارمیٹ کا شعور آیا۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں اگرچہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اب پاکستان میں سٹینڈ اپ کامیڈینز کو پاکستانی چینلز نے بھی رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے خلاف جو تنازع کھڑا ہوا ہے، اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان میں سٹینڈ اپ کامیڈی ہوتی ہے اور لڑکیاں بھی کرتی ہیں۔’’
پاکستان میں سٹینڈ اپ کامیڈی کے ناظرین کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اب ہمارے شوز اکثر پڑھے لکھے نوجوان دیکھتے ہیں جو پانچ سو، ہزار روپے کا ٹکٹ دے کر آتے ہیں۔ یہ لوگ فن کی قیمت جانتے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، رحیم یار خان اور غلام اسحق یونیورسٹی میں پرفارم کر چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’رحیم یار خان میں ہم ’آل گرلز کامیڈی ٹروپ‘ لے کر گئے تھے۔ وہاں لوگوں کا بہت اچھا ردعمل تھا۔ ہمیں یہ محسوس ہوا کہ عورتوں کے لئے یہ خوشگوار تبدیلی ہوتی ہے جب وہ عورتوں کو کامیڈی کرتے دیکھیں، پھر یہ کہ وہ مختلف رول کر رہی ہیں، جیسے کبھی عمران خان بن جاتی ہیں تو کبھی شیخ رشید۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ اسٹینڈ اپ کامیڈی کرتے ہوئے سب سے بڑا کیا چیلنج ہوتا ہے نطالیا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ لوگ نہ ہنسیں۔ جب لکھتے ہیں تو ہمیں تو بہت اچھا مواد لگ رہا ہوتا ہے۔ پورا ہفتہ لگایا ہوتا ہے، تیاری کی ہے، ٹائمنگ ٹھیک ہے مگر آگے سے اگر لوگ نہ ہنسیں تو پھر تو بہت برا لگتا ہے۔‘‘
اپنے کام کی تیاری کیسے کرتی ہیں کے جواب میں نطالیا نے کہا کہ ’’لوگوں سے اپنا کام ذاتی تجربے کے طور پر ایسے شیئر کرتی ہوں کہ میں جب چھوٹی تھی تو ایسے ہوا۔ اگر وہ اس پر ہنسیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پر کچھ نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ماں سے اپنا کام پہلے شیئر کرتی ہوں۔ میری بہن بہت بڑی ناقد ہے میری، کبھی نہیں ہنستی۔‘‘
ایک اسٹینڈ اپ کامیڈین کی ذمہ داری پر بات کرتے ہوئے نطالیا نے کہ ’’جب آپ کے ہاتھ میں مائک ہوتا ہے تو آپ پر ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ جیسے آج مجھے معافی مانگنی پڑ رہی ہے۔ سو ہمارے پاس ایک طاقت ہے اپنا پیغام دینے کی۔ اور مزاح کے ذریعے ہم زیادہ لوگوں تک رسائی رکھتے ہیں۔‘‘