'دھمکیاں ناقابلِ قبول ہیں'
وفاقی وزیر اطلاعات، فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ’’توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی اور دھمکیاں ناقابل قبول ہیں‘‘۔
جمعرات کو اپنے ایک ٹوئیٹ میں، اُنھوں نے کہا کہ اداروں کی استطاعت اور صلاحیت کے بارے میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے۔
بقول اُن کے، ’’نظرثانی ایک آئینی راستہ ہے جو متاثرہ فریق کا حق ہے. تاہم، توڑ پھوڑ، ھنگامہ آرائی اور دھمکیاں ناقابل قبول ہیں۔ اور، وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق، ایسے عناصر سے سختی سے نبٹا جائیگا‘‘۔
’’پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اداروں کی استطاعت اور صلاحیت کے بارے میں غلط فہمی دور کر لیں ورنہ پچھتائیں گے‘‘۔
مذاکرات کی ناکامی کا اعلان
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سربراہ، خادم حسین رضوی نے کہا ہے کہ حکومت سے مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔
ایک ٹوئیٹ میں اُنھوں نے بتایا ہے کہ ’’مذاکرات میں وفاقی و صوبائی نمائندگان و آئی ایس آئی کے جنرل فیض نے شرکت کی۔ مذاکرات کی ناکامی پر حکومت نے کہا ہے کہ ہم آپ کو ’’بھون‘‘ دیں گے۔ عاشقانِ رسول و عوام اہل سنت ناموس رسالت پر شہادت کو کفن باندھ لیں۔ ہم بالکل نہ جھکیں گے۔ کل ملک گیر پہیہ جام ہڑتال ہوگی‘‘۔
ادھر، ایک ٹوئیٹ میں، وفاقی وزیر اطلاعات، چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور گجرانوالہ میں کل ’’8 بجے صبح سے مغرب تک موبائل سروس بند رہے گی‘‘۔
'ہر معاملے میں فوج کو نہ گھسیٹا جائے'
پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا ہے اور یہ قانونی معاملہ ہے جس میں فوج کو گھسیٹنا درست نہیں۔
جمعے کو سرکاری ٹی وی 'پی ٹی وی' سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ افواجِ پاکستان کے خلاف بیانات افسوس ناک ہیں جس سے گریز کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فوج گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور یہ جنگ جیتنے کے قریب ہے لہذا اس کی توجہ اس جانب سے نہ ہٹائی جائے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواجِ پاکستان کی خواہش ہے کہ احتجاج کا معاملہ پر امن طریقے سے حل کیا جائے اور امن و امان کی صورتِ حال خراب نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان بہت برداشت کر رہی ہیں لیکن ان کے بقول "انہیں مجبور نہ کیا جائے کہ فوج وہ قدم اٹھائے جس کی آئین اور قانون اسے اجازت دیتا ہے۔"
فوج کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات حکومت کی سطح پر ہو رہے ہیں اور آئی ایس آئی افسر حکومتی وفد میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس مختلف آپشنز ہیں اور وہ پہلے پولیس، پھر رینجرز اور اس کے بعد فوج کے استعمال کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ ان کے بقول اگر حکومت فوج بلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو فوج کے سربراہ اس معاملے پر وزیرِ اعظم کو اپنا مشورہ دیں گے۔
'مظاہرین سے مذاکرات جاری ہیں'
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہیں غلط ہیں اور مظاہرین سے مذاکرات ابھی تک جاری ہیں۔
ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ حکومت تشدد سے گریز کر رہی ہے اور آخری لمحے تک اس کی کوشش ہوگی کہ معاملہ پرامن طریقے سے حل ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری آج ایک بار پھر مظاہرین کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
فواد چودھری نے کہا کہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتِ حال کنٹرول میں ہے اور ریاست عوام کے جان و مال اور آزادی کا تحفظ کرے گی۔