نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے ایشیائی سپر پاور چین پر زور دیا ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر کنٹرول کی بین الاقوامی کوششوں کا حصہ بن جائے، یہ اپیل ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب اطلاعات کے مطابق چین اپنے جوہری ذخیرے میں اضافہ کر رہا ہے
نیٹو کی جانب سے منعقدہ ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کےحوالے سے ترجیحات بیان کرتے ہوئے، سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا کہ میزائل کی تشکیل محدود کرنے سے متعلق آئندہ مذاکرات میں صرف روس ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ''عالمی طاقت کی حیثیت سے ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے چین پر عالمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور میزائل کی تعداد سے متعلق باہمی پابندی اختیار کرنا، شفافیت کے عنصر کو بڑھاوا دینا اور پیش گوئی کے قابل عمل طریقہ کار کو اپنانے سے خود چین ہی کو فائدہ ہو گا۔ درحقیقت یہ عناصر بین الاقوامی استحکام کے ستون کا درجہ رکھتے ہیں''۔
اس جانب انتباہ کرتے ہوئے کہ چین کا نیوکلیئر ذخیرہ بڑھتا جا رہا ہے، انھوں نے کہا کہ چین میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے گوداموں کی تعمیر میں اضافہ کر رہا ہے، جس سے چین کی جوہری استعداد میں اضافے کا پتا چلتا ہے۔ چین کی جانب سے یہ تمام کوششیں جاری ہیں جنھیں وہ محدود کرنے پر تیار نہیں، جب کہ چین یہ تمام کوششیں عدم شفافیت کے ماحول میں کر رہا ہے''۔
سن 2019 میں امریکہ نے روس پر تخفیف اسلحہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا؛ اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) کے 1987ء کے معاہدے سے الگ ہو گیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت درمیانے فاصلے کے تمام قسم کے نیوکلیئر اسلحے پر کنٹرول طئے تھا، جس میں زمین سے لانچ کیے جانے والے کروز میزائل بھی شامل تھے جو 500 کلومیٹر (310 میل) سے 5000 کلومیٹر یعینی3100 میل) تک مار کر نے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ روس اس بات کی تردید کرتا ہے کہ اس نے قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔
اس معاہدے کے ٹوٹنے کے بعد بھی چین اس کیٹگری کا اسلحہ تیار کرتا رہا، اور اس کی جانب سے تخفیف اسلحہ سے متعلق مذاکرات میں شرکت کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا گیا۔
اسٹولٹن برگ نے امریکہ اور روس کے مابین ہونے والے سمجھوتے کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت نیوکلیئر ہتھیاروں کو محدود کرنے کے نیو 'اسٹارٹ' معاہدے میں مزید پانچ سال کی توسیع کی گئی ہے۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ تخفیف اسلحہ کے زمرے میں مزید اقسام کے اسلحے کو شامل کیا جانا چاہیے، جس میں مصنوعی ذہانت جیسی نئی ٹیکنالوجی شامل ہو۔