نیٹو کے لیڈروں کی توجہ اس فوجی اتحاد کے نئے مشن پر ہوگی اور وہ یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ سرد جنگ کے بعد کے دور میں، نیٹو کا رول کیا ہوگا۔
گیارہ برس پہلے آخری بار نیٹو کے اسٹریٹیجک مقصد کی وضاحت کی گئی تھی، اور ماہرین کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک نئی دستاویز کی منظوری دی جائے جس میں ایک ایسی دنیا میں جس میں گذشتہ عشرے کے دوران زبردست تبدیلیاں آئی ہیں، نیٹو کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے۔
کلنٹن انتظامیہ کے دور میں نیٹو میں امریکہ کے سفیر، رابرٹ ہنٹر کہتے ہیں کہ نئے اسٹریٹجک تصور میں بتایا جائے گا کہ آنےوالے برسوں میں عام طور سے نیٹو کا رول کیا ہو گا۔
‘‘نمبر ایک تو یہ کہ اس اتحاد میں اصل توجہ خود اتحاد کے دفاع پر ہو گی، یعنی وہ عہد جو آرٹیکل پانچ میں کیا گیا ہے کہ ہر ملک بقیہ تمام ملکوں کا دفاع کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب علاقائی دفاع نیٹو کا بنیادی کام نہیں ہے بلکہ وہ خطرات اور چیلنج اہم ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف صورتوں میں پیدا ہوں گے۔ مثلاً دہشت گردی، سرحدوں کے پار جرائم۔ توانائی کی فراہمی کی سیکورٹی کا حوالہ دیا جائے گا اگرچہ اس میں نیٹو کا رول بنیادی اہمیت کا نہیں ہو گا۔ سائبر سیکورٹی بہت اہم ہو جائے گی۔’’
ہنٹر کہتے ہیں کہ نیٹو کی دستاویز میں جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ملکوں کے ساتھ نئی شراکت داریوں کی بات بھی کی جائے گی۔
اسٹریٹجک تصور کی بنیاد وہ رپورٹ ہے جو ماہرین کے ایک گروپ نے سابق امریکی وزیرِ خارجہ Madeline Albright کی قیادت میں تیار کی تھی اور جو نیٹو کے سکریٹری جنرل اینڈرز فوگ راس موسن کو پیش کی گئی تھی۔
Ohio Wesleyan University کے ایک ماہر Sean Kay کہتے ہیں کہ نیٹو کی یہ دستاویز بالکل سپاٹ ہو گی۔ نیٹو کی اکثر دستاویزات میں ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جس پر سب متفق ہوں، اور اب اس عمل میں تقریباً تیس ممالک شامل ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نیٹو کےلیڈر افغانستان میں نیٹو کی کارروائیوں پر بھی بات چیت کریں گے ۔ آج کل اس کے130,000 سپاہی اقوام ِ متحدہ کے اختیار کے تحت، انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس یا ISAF کے نام سے وہاں تعینات ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو کے مشن کے تین مقاصد ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ملک کی تعمیر نو میں اور اسے مستحکم بنانے میں صدر حامد کرزئی کی حکومت کی مدد کی جائے۔ دوسرا مقصد افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینا ہے، اور تیسرا مقصد جنوبی افغانستان سے باغی عناصر کا خاتمہ کرنا ہے۔
جنوبی افغانستان طالبان کا گڑھ ہے جن کا تختہ امریکہ کے زیرِ قیادت فوجی اتحاد نے 2001 میں الٹ دیا تھا۔
رابرٹ ہنٹر کہتے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو کی کارروائیاں اس تنظیم کے مجموعی اسٹریٹجک تصور سے منسلک ہیں۔
‘‘یورپ میں تقریباً سب متفق ہیں کہ افغانستان جیسے مسئلے میں نیٹو نے آخری بار ہاتھ ڈالا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہاں امریکہ میں اس قسم کے مسئلے میں مزید الجھنے کی کوئی خواہش موجود ہے۔ نیٹو کو اب یہ طے کرنا ہے کہ افغانستان کے بعد، یہ اپنے مقصد کی وضاحت کس طرح کرے، اگر کوئی دوسرا افغانستان جیسا مسئلہ موجود نہ ہو۔ بلکہ آپ اس وقت تک کوئی ایسا اسٹریٹجک تصور پیش ہی نہیں کر سکتے جس کا کوئی مطلب ہو، جو موئثر ہو، جس میں کچھ مشکل فیصلے کرنے پڑیں، جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ اگلے برس کے لگ بھگ افغانستان میں کیا ہوگا۔’’
Sean Kay اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس حقیقت سے کہ امریکہ کو مزید تیس ہزار فوجی افغانستان بھیجنے پڑے ہیں، یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس معاملے میں نیٹونے وہ توقعات پوری نہیں کیں جو اس سے وابستہ کی گئی تھیں۔ تو اگر نیٹو کی تنظیم ان بنیادی توقعات کو پورا نہیں کر سکتی، تو پھر اس سے مجموعی اسٹریٹیجک تصور کے بارے میں کہیں زیادہ اہم سوالات پیدا ہوتےہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ سربراہ کانفرنس میں نیٹو کے ممالک افغان مشن کے لیئے مزید لڑاکا فوجی افغانستان بھیجنے کو تیار ہوں گے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ نیٹو کے اعلیٰ عہدے دار افغان فوج کو تربیت دینے کے لیئے مزید عملہ مانگیں گے تا کہ وہ 2014 تک سیکورٹی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ یہ تاریخ افغان حکومت نے مقرر کی ہے۔