مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' کے رکن ملکوں کے سربراہان جمعرات کو اپنے اجلاس کے دوسرے روز افغانستان کی صورتِ حال پر غور کر رہے ہیں۔
نیٹو رکن ممالک کے سربراہان کا دو روزہ سالانہ اجلاس بدھ کو برسلز میں تنظیم کے نئے صدر دفتر میں شروع ہوا تھا جس میں تنظیم کے 29 رکن ملکوں کے سربراہان اور اعلیٰ حکام شریک ہیں۔
دوسرے روز کے اجلاس میں نیٹو کے بعض اتحادی ملکوں کے سربراہان بھی شریک ہوں گے جن میں افغانستان کے صدر اشرف غنی اور یوکرائن کے صدر پیترو پوروشینکو بھی شامل ہیں۔
'نیٹو' کے سربراہ جینز اسٹالٹن برگ کا کہنا ہے کہ اجلاس کے ایجنڈے میں سرِ فہرست نیٹو ممالک کو 2024ء تک افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی مالی امداد جاری رکھنے پر آمادہ کرنا ہے۔
فی الحال نیٹو ہر سال افغان فورسز پر لگ بھگ ایک ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے اور نیٹو سربراہ نے کہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران فنڈنگ کی یہ سطح برقرار رکھی جائے۔
افغانستان پر ہونے والے نیٹو کے اس سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل برطانیہ نے افغانستان میں تعینات نیٹو کے تربیتی مشن کے لیے مزید فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
بدھ کو برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے کہا تھا کہ افغانستان میں نیٹو کے مشن کے لیے برطانیہ مزید 440 فوجی اہلکار بھیجے گا۔
تھریسا مے نے کہا تھا کہ ان کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ نیٹو جب بھی پکارے گا، برطانیہ سب سے پہلے اس پکار کا جواب دینے والوں میں ہوگا۔
جمعرات کے اجلاس میں نیٹو رہنما اتحاد کے رکن بننے کے خواہش مند یوکرائن اور جارجیا کے ساتھ نیٹو کے تعلقات کے مستقبل پر بھی بات کریں گے۔
یوکرائن اور جارجیا کی فوجیں افغانستان میں نیٹو مشن کا حصہ رہی ہیں لیکن اتحاد میں ان کی شمولیت روس کی جانب سے ان دونوں ملکوں کی حدود میں مداخلت کے باعث کھٹائی میں پڑچکی ہے۔
'نیٹو' کے قوانین کے مطابق کوئی بھی ایسا ملک اتحاد کا رکن نہیں بن سکتا جس کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ سرحدی تنازعات ہوں یا کسی علاقے کے ملکیت پر کوئی جھگڑا چل رہا ہو۔
نیٹو کے سربراہی اجلاس نے بدھ کو اتحاد میں شمولیت کے لیے مقدونیہ کو مذاکرات شروع کرنے کی باضابطہ دعوت دینے کی منظوری بھی دی تھی جو بات چیت کامیاب ہونے کی صورت میں اتحاد کا 30 واں رکن ہوگا۔
اس سے قبل بدھ کو نیٹو کے سربراہ اجلاس کا پہلا دن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیٹو ممالک سے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کے مطالبات اور امریکہ کے اتحادی ملکوں پر ان کی تنقید کی نذر ہوگیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اجلاس سے قبل اپنی ملاقاتوں اور اجلاس کےدوران بھی نیٹو کے رکن ملکوں سے اپنا یہ دیرینہ مطالبہ دہرایا تھا کہ وہ تنظیم کے منشور کے مطابق اپنی کل قومی پیداوار (جی ڈی پی)کا کم از کم دو فی صد دفاع پر خرچ کریں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے یورپی اتحادیوں پر امریکہ کو لوٹنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ یورپ کے دفاع پر یورپی ملکوں سے کہیں زیادہ خرچ کر رہا ہے۔
انہوں نے امریکہ کے قریبی اتحادی اور یورپ کے امیر ترین ملک جرمنی پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے روس کا "قیدی" قرار دیا تھا۔
امریکی صدر کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے جرمنی کے وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ان کا ملک نہ روس اور نہ ہی امریکہ کا قیدی ہے اور اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں آزاد ہے۔