نیٹو کے سربراہ اینڈرس فو راسموسن نے اُمید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل جلد بحال ہو جائے گی۔
پاکستان نے مہمند ایجنسی میں سلالہ کی سرحدی چوکی پر نومبر میں امریکی فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر اپنے سخت ردِعمل میں نیٹو افواج کے لیے رسد سے لدے قافلوں کی نقل و حمل پر پابندی عائد کر دی تھی۔
آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے سربراہ نے کہا کہ وہ پُر امید ہیں کہ پاکستان سے گزرنے والی راہ داریاں ’’مستقبل قریب‘‘ میں کھول دی جائیں گی۔
تاہم اُنھوں نے بلواسطہ طور پر یہ اشارہ بھی دیا کہ اتحادی افواج محض اس ہی راہ داری پر انحصار نہیں کرنا چاہتیں۔
’’افغانستان میں انتہائی جامع مشن کو بتدریج ختم کرنا حسابی طور پر ایک چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ راہ داریوں کی ضرورت ہے۔‘‘
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سن 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے اپنی لڑاکا افواج کے انخلاء سے متعلق منصوبے پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے اور ناصرف اس وقت غیر ملکی افواج کے لیے خوراک، ایندھن اور دیگر ساز و سامان درکار ہے بلکہ انخلاء کے وقت ایک لاکھ سے زائد فوجیوں اور اُن کے ساز و سامان کی واپسی کے لیے بھی موثر منصوبہ بندی ناگریز ہے۔
اینڈرس راسموسن کا تازہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب نیٹو نے سامان حرب کی منتقلی کے لیے حال ہی میں ازبکستان، کرغزستان اور قازقستان سے معاہدے کیے ہیں۔
امریکہ نے رواں ہفتے اعلان کیا تھا کہ اُس نے پاکستانی حکام سے نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کے سلسلے میں تکنیکی سطح پر مذاکرت میں شریک اپنی ٹیم کو واپس بلا لیا ہے۔