رسائی کے لنکس

نوجوت سنگھ سدھو پاکستان کے تعلق سے ایک بار پھر تنازعہ میں پھنس گئے


نوجوت سنگھ سدھو۔ فائل فوٹو
نوجوت سنگھ سدھو۔ فائل فوٹو

ریاست پنجاب کے وزیر اور سینئر کانگریس رہنما نوجوت سنگھ سدھو ایک بار پھر پاکستان کے تعلق سے ایک تنازعہ میں پھنس گئے۔ اُنہوں نے ہماچل پردیش کے کسولی میں منعقدہ ایک ادبی فیسٹیول میں بولتے ہوئے کہا کہ زبان اور کھانے کے مسائل کی وجہ سے جنوبی ہند کے بجائے پاکستان جانا زیادہ بہتر ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ جب میں بھارت کے جنوبی حصے میں جاتا ہوں تو وڈکم جیسے دو تین الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں سمجھ پاتا۔ کھانے کا معاملہ ٹھیک ہے۔ لیکن وہاں کے کھانے میں زیادہ دنوں تک نہیں کھا سکتا۔

لیکن جب میں پاکستان جاتا ہوں تو وہاں کے لوگ پنجابی اور انگریزی بولتے ہیں۔ لہٰذا میں خود کو ان سے کہیں زیادہ متعلق محسوس کر سکتا ہوں۔ بقول ان کے وہاں سب کچھ انوکھا ہے۔

سدھو نے اپنی یہ بات ایک بار پھر دوہرائی کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملنے پر ان کو کوئی افسوس نہیں ہے۔ بقول ان کے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ کرتار پور صاحب راہداری کھولنے کے لیے تیار ہے تو میں اس کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کروں گا۔

بی جے پی نے ان کے بیان پر سخت اعتراض کیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیں۔ بی جے پی کے ترجمان جی وی ایل نرسمہا راؤنے کہا کہ ہم جاتنے ہیں کہ آپ کی پارٹی پاکستان سے محبت کرتی ہے اور اس کے گُن گاتی ہے۔

کانگریس صدر راہول گاندھی کو چاہیئے کہ وہ جنوبی بھارت کے ہر شہری سے معافی مانگیں اور سدھو سے بھی منگوائیں۔ اُنہوں نے سدھو کو پارٹی سے برطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

ایک سینئر تجزیہ کار سید منصور آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سدھو نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس پر ہنگامہ کھڑا کیا جائے۔ جب ہمارے رہنما دوسرے ملکوں کے رہنماؤں سے گلے ملتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن جب پاکستان کا معاملہ آتا ہے تو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اعتراض کیا جاتا ہے۔

منصور آغا نے مزید کہا کہ بی جے پی اس معاملے کو سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے تاکہ اس وقت ملک میں جو بہت سنگین مسائل اٹھے ہوئے ہیں ان سے عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کی جا سکے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی جس قسم کی باتیں کر رہی ہے وہ بھارت کے مفاد کے خلاف ہے۔ بھارت کو چاہیئے کہ وہ تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے رشتے بنائے۔ آج بیشتر پڑوسی ملکوں سے ہمارے رشتے خراب ہیں۔ لہٰذا حکومت اور بی جے پی کو پڑوسیوں سے دوستانہ مراسم کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ نوجوت سنگھ سدھو جب پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں گئے تھے تو اُنہوں نے پاکستان کے آرمی چیف کو گلے لگایا تھا جس پر یہاں ہنگامہ برپا کیا گیا تھا۔

سدھو نے یہ کہہ کر اپنا دفاع کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان سے کہا تھا کہ پاکستان کرتار پور صاحب راہداری کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذا میرا رد عمل جذباتی تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG