پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے فیصلے پرحکمراں جماعت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری ہے مگر حکمت عملی میں واضح فرق محسوس کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز پھر’ عدلیہ بحالی تحریک‘ میں لانگ مارچ سے قبل والی صورتحال سے دو چار ہو گئی۔
وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا فیصلہ آئے ہوئے پانچ روز گزر گئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت میں نہ ختم ہونے والا بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اگرجائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اس معرکے کیلئے بھر پور انداز میں پہلے سے تیار تھی اوربہت پہلے سے ہی اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دے چکی تھی۔قانونی محاذ پر27 دسمبر کو صدر زرداری نے پہلا پتا پھینکا اوربے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر وہ اعتزاز احسن کو منظر عام پر لائے۔
اعتزاز احسن کا عدلیہ بحالی کیلئے وکلا تحریک میں کلیدی کردار رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف وکلا بلکہ دیگر حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ دوسری جانب صدر نے بابر اعوان کی قربت دوری میں بدل دی ۔اس کے علاوہ جیسے جیسے توہین عدالت کیس میں کارروائی بڑھتی گئی پیپلزپارٹی بھی حالات کے مطابق ڈھلتی گئی۔
صدر نے چار اپریل کو ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے فورا بعد لاہور کا رخ کیا ، پارٹی کارکنان کو اعتماد میں لیا۔13اپریل یعنی فیصلے سے 13روز قبل پانچ وفاقی وزراء اور چھ وزرائے مملکت کابینہ میں شامل کیے گئے۔ اس کے اگلے ہی روز صدر جنوبی پنجاب کے دورے پر پہنچ گئے ۔وہاں نہ صرف سرائیکی صوبے اور جنوبی پنجاب بینک کے قیام کا اعلان کیا بلکہ پارٹی کارکنان کو بھی وہ قریب لے آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس دن توہین عدالت کا فیصلہ ہوا اسی روز ضمنی انتخاب میں پنجاب اسمبلی کی ملتان سے نشست تقریبا 30سال بعد پیپلزپارٹی کو ملی اور ن لیگ کو شکست ہوئی۔
16 اپریل کو مزید چار وزرائے مملکت حکومت میں شامل کیے گئے۔ دلچسب بات یہ تھی کہ چار روز میں حکومت میں شامل ہونے والے تمام وزراء کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا اور جبکہ اس حوالے سے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ کابینہ میں توسیع میں پنجابی رنگ بھی زیادہ نظر آیا جس کا صاف مطلب یہ نظر آتا ہے کہ اگر حکومت کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو پنجاب سے زیادہ سپورٹ ملے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے کردار پر نظر دوڑائیں تو صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ توہین عدالت کا فیصلہ ن لیگ کے لئے ’اچانک ‘ثابت ہوا ۔ اس حوالے سے اس کی کوئی حکمت عملی بھی نظر نہیں آ رہی۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے فورا بیان داغ دیا کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ جب کہ وزیراعظم آئے اور تقریر بھی کی۔ دوسرے روز پھر وہی دھمکی لیکن وزیراعظم پھر آئے۔ اور اس مرتبہ تو وزیراعظم جب ایوان میں آئے تو ن لیگ کے بعض اراکین نے ان سے مصافحہ بھی کیا اور خیریت بھی دریافت کی۔
اگر چہ فیصلے کے اگلے روز ہی مسلم لیگ ن کے صدر نے لانگ مارچ سمیت احتجاج کے تمام آپشنز کی بات کی اور دیگر جماعتوں سے رابطوں کا بھی اعلان کیا لیکن کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ نواز شریف نے چار روز بعد پھر پریس کانفرنس کی لیکن اس کے باوجود وہ مطالبات کی حد تک ہی رہے ، کوئی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ پانچ روز گزر جانے کے باوجود ن لیگ منظر نامہ پر اکیلی ہی نظر آ رہی ہے۔
پارلیمنٹ کے اندر دوسری بڑی اپوزیشن جماعت جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان منظر عام سے غائب ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر موجود تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں ہی مسلم لیگ ن پر اعتبار نہیں کر رہیں۔ عمران خان نے ن لیگ کی احتجاجی تحریک میں شمولیت کی شرط عائد کر دی کہ ن لیگ کے اراکین اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں اور اس کیلئے انہوں نے ن لیگ کو صرف پانچ روز کا وقت دیا ہے کیونکہ عمران خان نے ساتھ ہی چھ مئی کو اسلام آباد میں احتجاجی ریلی بھی نکالنے کا اعلان کر دیا ہے اور اگر ریلی کامیاب ہو گی تو پھر وہ حکومت مخالف تحریک چلانے میں ن لیگ پر سبقت لے سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس تمام تر صورتحال میں ن لیگ پھر عدلیہ بحالی تحریک میں لانگ مارچ سے قبل جس طرح تذبذب کا شکار ہو گئی تھی اسے پھر وہی حالات درپیش ہیں۔ مستعفی ہونے کے ساتھ ساتھ اسے پنجاب حکومت کی قربانی بھی دینی پڑسکتی ہے۔ بہرحال ن لیگ کیلئے وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکتی ہے یا پھر سوچتی ہی رہے گی اور عمران خان کی قسمت چمک جائے گی۔
فیصلے کے اگلے روز ہی مسلم لیگ ن کے صدر نے لانگ مارچ سمیت احتجاج کے تمام آپشنز کی بات کی اور دیگر جماعتوں سے رابطوں کا بھی اعلان کیا لیکن کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔پارلیمنٹ کے اندر دوسری بڑی اپوزیشن جماعت جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان منظر عام سے غائب ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر موجود تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دونوں ہی مسلم لیگ ن پر اعتبار نہیں کر رہیں۔
مقبول ترین
1