رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) سے قربت: مسلم لیگ (ن) کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟


سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی تھی۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی تھی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بدھ کو مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات میں کامیابی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی جماعتوں سے بھی اتحاد پر تیار ہے۔

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ یہ ملاقاتیں کسی اشارے کے بغیر نہیں ہو رہیں، تاہم یہ ملاقاتیں کتنی سود مند ثابت ہو سکتی ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہ وہ ساری ملاقاتیں یا اتحاد ہیں جن سے ایک خاص پیغام ملتا ہے کہ نواز شریف اقتدار میں آ رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ یہ تمام سیاسی قوتیں نواز شریف کے ساتھ ہیں اور نواز شریف نے بھی پاکستان واپسی پر مینارِ پاکستان پر جلسے میں قومی مفاہمت کی بات کی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے، اُس میں قومی مفاہمت سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف اِس قومی مفاہمتی ایجنڈے کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) تک بھی وسیع کریں گے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ابھی سیاسی اتحاد نہیں بنے، ابھی تو صرف بات چیت ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جب تک کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہو رہا ہے؟

تجزیہ کار اور کالم نویس احمد ولید سمجھتے ہیں کہ پاکستان واپسی پر نواز شریف کو جس قسم کا پروٹوکول مل رہا ہے، اس سے پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی تحفظات ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے لیے اب 'لاڈلہ' کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے جو پہلے عمران خان کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہی ہوئی ہیں۔

احمد ولید کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کا یہ پیغام ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر چلیں جب کہ مسلم لیگ (ن) بھی ہر قیمت پر الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔

یاد رہے کہ ماضی میں ایم کیو ایم تین بار مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت رہ چکی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف حکومت میں بھی شامل تھی اور جب عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی تو وہ اُسے چھوڑ کر پی ڈی ایم میں شامل ہو گئی تھی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سیاسی صف بندی کر رہی ہیں، دونوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ بڑا سیاسی اتحاد بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔

سلمان غنی کا کہنا تھا کہ یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ انتخابی اتحاد کے لیے ایک بڑی سیاسی جماعت کو چھوٹی جماعتوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر حقائق پر نظر ڈالی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت میں آتی دکھائی نہیں دیتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اتحادی حکومت بنے گی اور اتحادی بھی وہ ہوں گے جو 16 ماہ کی حکومت کے اندر تھے۔ لیکن اِس میں پیپلز پارٹی بہت اہم ہے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری 2024 کی تاریخ کا اعلان کر رکھا ہے۔

سلمان غنی کے بقول اگر نواز شریف کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو وہ بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن سندھ کی سطح پر ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) منظم نہیں ہو سکی۔

مظہر عباس کی رائے میں ابھی جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہی ہیں اُن میں ایک دوسرے پر اعتماد کی بہت کمی ہے۔ مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) سے ہی نکل کر آئی ہے۔

چوہدری برادران اور شریف فیملی کے تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں جس کا تذکرہ چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں بھی کر چکے ہیں۔ مگر اب مسلم لیگ (ق) بھی ایک جماعت نہیں رہی۔ اُن کا ایک حصہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور ایک مسلم لیگ (ن) کے قریب ہے۔

احمد ولید کی رائے میں تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کو سامنے رکھ کر سیاسی اتحاد بنا کر فائدے اُٹھانا چاہتی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے سیاسی فائدے اُٹھانا چاہتی ہیں۔ سب سیاسی جماعتوں کا ہدف پاکستان تحریک انصاف ہے۔

'پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کو نقصان ہو سکتا ہے'

مظہر عباس کے پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ انتخابی الائنس کی صورت میں ایک جماعت کا ووٹر دوسری جماعت کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیتا، وہ صرف اپنی ہی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینا پسند کرتا ہے۔

احمد ولید سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بننے سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کو سیاسی نقصانات ہو سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی جگہ پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی مضبوط ہے تو مسلم لیگ (ن) استحکامِ پاکستان پارٹی یا دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اُن کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے کی کوشش کرے گی۔

مظہر عباس کے بقول انتخابی الائنس کی صورت میں ووٹر جس جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے اسی اُمیدوار کو ووٹ دیتا ہے، لیکن اگر اُمیدوار کسی اور جماعت کا ہو تو اس میں جوش و خروش باقی نہیں رہتا۔

فورم

XS
SM
MD
LG